تحریر:مبارک علی
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حال ہی میں دستخط ہونے والا دفاعی معاہدہ خطے کی جغرافیائی سیاست کو نئی سمت دے رہا ہے۔ 17 ستمبر 2025 کو ریاض میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کیے، جسے "اسٹریٹیجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ” کہا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان باہمی دفاعی ذمہ داریاں طے کرنا ہے، جس کے تحت کسی ایک ملک پر حملے کو دونوں پر حملہ قرار دیا جائے گا۔ یہ معاہدہ علاقائی عدم استحکام، خاص طور پر اسرائیل کی حالیہ جارحیتوں اور قطر پر حملوں کے تناظر میں سامنے آیا ہے، جو سعودی عرب کی حفاظتی ضروریات کو اجاگر کرتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے سعودی عرب میں 50 ہزار فوجیوں کی تعیناتی متوقع ہے۔ اس میں مقدس شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی دفاعی ذمہ داری پاکستان کی مسلح افواج کے حوالے ہو جائے گی۔ یہ تعیناتی 1960 کی دہائی سے جاری دفاعی تعاون کی توسیع ہے، جب پاکستان نے پہلی بار سعودی عرب میں فوجی دستے بھیجے تھے۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب میں 1,500 سے 2,000 پاکستانی فوجی مشقیں اور تربیت کے لیے موجود رہے، مگر اب یہ تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ، پاکستان پانچ میزائل رجمنٹس قائم کرے گا، جن میں بیلسٹک، کروز اور ابابیل میزائل شامل ہوں گے۔ ابابیل میزائل، جو بیک وقت 13 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے، سعودی دفاعی نظام کو جدید بنانے کا کلیدی جزو ہو گا۔ جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹمز اور نئی ایئربیسز کی تعمیر بھی اس منصوبے کا حصہ ہے، جو سعودی تیل کی سپلائی روٹس کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔
اس دفاعی تعاون کی تکنیکی بنیاد ایک مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہو گی، جو دونوں ممالک کی افواج کو ایک ساتھ متحرک کر سکے گی۔ کسی حملے کی صورت میں مدد طلب کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی؛ سسٹم خودکار طور پر ردعمل دے گا۔ پاکستان اس مقصد کے لیے ایئر کمیونیکیشن سسٹم بھی قائم کر رہا ہے، جس کی بنیاد 406 ملین ڈالرز کی لاگت سے چین سے 20 سیٹلائٹس کی خریداری پر رکھی گئی ہے۔ یہ سیٹلائٹس، جو سوپارکو کے تعاون سے لانچ ہوں گی، پورے خطے کی نگرانی ممکن بنائیں گی اور حقیقی وقت کی ریموٹ سینسنگ فراہم کریں گی۔ سعودی فضائیہ میں پاکستانی جے ایف-17 تھنڈر طیاروں اور 10 سی طیاروں کی شمولیت بھی معاہدے کا حصہ ہے، جو سعودی دفاعی صلاحیت کو مزید مستحکم کرے گی۔
یہ منصوبہ ایک سال میں مکمل ہو جائے گا، جس کے لیے پاکستانی افسران کا وفد چند دنوں میں سعودیہ پہنچ جائے گا۔ تاریخی طور پر، پاکستان نے 1982 کے پروٹوکول کے تحت سعودی فوج کی تربیت اور تعیناتی کی ہے، جہاں 20 ہزار سے زائد فوجی تعینات رہے۔ آج یہ تعاون اقتصادی اور تزویراتی طور پر پاکستان کے لیے سہارا بن رہا ہے، جبکہ سعودی عرب کو جوہری طاقت رکھنے والے اتحادی کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہ معاہدہ بھارت جیسے ہمسایوں کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے، جو علاقائی توازن کو متاثر کرے گا۔