پشاور سے رشید آفاق کی خصوصی تحریر: ۔
میں شفیعاللہ گنڈاپور کو تب سے جانتا ہوں جب وہ پشاور میں ایس پی سٹی تھے،جب تک وہ ایس پی سٹی رہے، سٹی ایریا میں سنیچرز کا نام و نشان تک نہیں تھا، جرائم کی شرح بہت کم تھی،تب ہم صرف دوست تھے،جو عام طور پر ایک میڈیا پرسن اور ایک پولیس افسر کے درمیان روایتی شناخت یا دوستی ہوتی ہے ۔
پھر قبائلی اضلاع کو ضم کیا گیا،حالات بدل گئے، ہم بھی بحث و مباحثے میں الجھ گئے،ہم پشتونوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جو چیز منتخب کرتے ہیں، دوسروں کو ان سے دور رکھنے کی کوشش اور تلقین کرتے رہتے ہیں،کبھی مولانا فضل الرحمن ہمیں مرجر سے ڈراتے رہے (جو ایک حد تک سچ بھی ثابت ہوا)، کبھی ہم یہاں پشاور میں رہتے ہوئے پولیس کی کرامات سے محفوظ رہتے، کبھی سٹوڈنٹ لائف میں ایف سی آر جیسی قوانین کی اذیت بازیوں کو محسوس کرتے ،دوسرے قبائلی نوجوانوں کی طرح ہمیں بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جائیں تو کہاں جائیں؟ کریں تو کیا کریں؟
پھر قبائلی اضلاع کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ل،وہاں پولیس آ گئی، عدالتیں لگ گئیں،ہمارے شمالی وزیرستان میں بھی پولیس آ گئی،عام لوگ، قبائلی مشران اور خود خاصہ دار حیران و پریشان تھے،پھر ہمارے وزیرستان کو جو سب سے پہلا پولیس افسر بطور ڈی پی او گیا وہ شمالی وزیرستان میں شفیعاللہ گنڈاپور تھے،وہاں انگریز دور سے خاصہ دار اور پولیٹیکل ایجنٹ کلچر تھا؛ لوگ پولیس کو نہ صرف ناپسند کرتے بلکہ زیادہ تر لوگ پولیس کے نام سے وحشت زدہ ہو جاتے تھے،بہت لوگ پولیس سے کھلے عام نفرت کرتے تھے،
جس معاشرے میں لوگ چرس کو عام سگریٹ سے بھی کم نقصان دہ سمجھتے تھے، وہاں شفیعاللہ گنڈاپور نے چرس کو ممنوع قرار دیا،عدالتوں کے نام سے لوگ خوفزدہ رہتے تھے، وہاں لوگ عدالتوں میں جانے لگے،قبائلی مشران کو یقین دلایا کہ پولیس آپ کی حفاظت اور عزتِ نفس کو بچانے کے لیے آئی ہے،لوگوں میں سیاسی اور قانونی شعور کو بیدار کیا، پولیس کو عوام دوست بنایا،وہ بھی ایک ایسے مرج ضلع میں جہاں لوگ پولیس کا نام لینا تک گوارہ نہیں کرتے تھے،یہ سب ناممکنات کو ممکنات میں اس ترتیب اور خوبصورتی سے سرانجام دیا کہ لوگ پولیس کو اپنے محافظ اور پولیس والوں کو اپنے وجود کا حصہ سمجھنے لگے،
یہ سب کچھ شفیعاللہ گنڈاپور کی اپنی شخصیت، بہترین حکمتِ عملی، قابلیت، ذہانت اور ہر دل عزیز ہونے کی وجہ سے ممکن ہوا،شفیعاللہ گنڈاپور چونکہ خود ایک خاندانی آدمی ہیں، اس لیے قبائلی عوام کی عزتِ نفس کو مجروح ہونے سے بچایا،انھیں جرگوں کے ذریعے، پیار و محبت سے سمجھایا کہ یہ وطن اور اس مٹی پر جانیں نچھاور کرنے والے پولیس ہی ہیں، آپ ہی کی مرہونِ منت پولیس کامیاب ہوگی اور جب پولیس کامیاب ہوگی تو ایک پرامن معاشرہ وجود میں آئے گا،
پھر وہ دن بھی اہل شمالی وزیرستان نے دیکھا کہ لوگ سڑکوں، شاہراہوں اور گاؤں میں پولیس پر پھول نچھاور کیا کرتے تھے،پولیس فعال ہوگئی، پولیس اسٹیشنز بن گئے، چوکیوں میں عملہ آباد ہوگیا، پولیس سینہ تان کر گلی گلی، محلے محلے تک پہنچ گئی،یہ جو اب عوامی پولیسنگ کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں، یہ شفیعاللہ گنڈاپور نے ایک ایسے قبائلی علاقے میں ممکن کر کے دکھایا جہاں لوگ پولیس کو جانتے بھی نہیں تھے،اس نفیس پولیس افسر نے اتنی نفاست اور جانفشانی سے شمالی وزیرستان میں ایک ایسی پولیس کی بنیاد رکھی جو عرصہ تک لوگوں کو یاد رہے گی،اس کے علاوہ بھی شفیعاللہ گنڈاپور جہاں رہے ایک عہد ساز وقت گزارا،
پھر وہاں حالات کو بدلنا تھا، نئے فیصلے اور منصوبے بنائے گئے،اس لیے دیگر قبائلی علاقوں کی طرح وہاں بھی پولیس کو زیربام اور زیرِ عتاب رکھا گیا،اگرچہ وہاں اب بھی ڈی پی او وقار احمد کی طرح پولیس افسر موجود ہیں جو جان تو فرائض کی بجاآوری پر قربان کر سکتے ہیں اور پولیس کی شان پر کمپرومائز نہیں کرتے،
ہمارے پشاور میں بہت کم عرصے کے لیے مسعودبنگش بطور ایس ایس پی آپریشن آئے جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ اگر خلوصِ نیت ہو تو کسی بھی شہر کو بلاؤں سے بچایا جا سکتا ہے،ان کا تبادلہ ہوگیا اور وہ بطور ڈی پی او مردان منتقل ہو گئے،اب یہاں پشاور میں پھر ایک ایسے نڈر اور بہادر ایس ایس پی آپریشنز کی ضرورت ہے جس کے لیے میرے خیال میں شفیعاللہ گنڈاپور کے مقابلے میں شاید کوئی کامل پولیس افسر ملے،
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!

