خالد خان
سیاسی فیصلے بعض اوقات بند کمروں میں ہوتے ہیں، مگر ان کی بازگشت صدیوں تک تاریخ کے گوشوں میں گونجتی رہتی ہے۔ پاکستان نے اگست کی گرمی کی شدت لیے ان دنوں میں جب افغان طالبان مخالف جلاوطن رہنماؤں کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا، تو یہ محض ایک تقریب کا اعلان نہ تھا بلکہ خطے کی پیچیدہ شطرنج پر ایک نئی چال کا آغاز تھا۔ 25 اور 26 اگست کو منعقد ہونے والا یہ اجلاس اب ایک سادہ اجلاس نہیں رہا، بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں پاکستان کی نئی حکمت عملی، علاقائی الجھنیں اور عالمی صف بندیوں کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
افغانستان کے تناظر میں پاکستان ہمیشہ ایک بنیادی فریق رہا ہے—کبھی دوستی کے نام پر، کبھی سٹریٹجک مفادات کی آڑ میں۔ طالبان کی سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پیچیدگی اور توقعات کا امتزاج رہے ہیں۔ لیکن تحریک طالبان پاکستان کی تازہ سرگرمیاں اور کابل حکومت کی خاموشی، پاکستان کے لیے ایک خفیف شکایت نہیں، بلکہ ایک بڑھتی ہوئی فکری الجھن بن چکی ہے۔ اب اسلام آباد محض مشاہدہ نہیں کرنا چاہتا، بلکہ خود کو ایک فعال اور مؤثر قوت کے طور پر متعارف کروانے کے لیے کوشاں ہے۔
زلمے خلیل زاد نے اس اجلاس پر جو کڑی تنقید کی، وہ سفارتی اخلاقیات سے زیادہ ایک پرانی روش کی عکاسی کرتی ہے۔ اُن کے بقول یہ اقدام غیرسیاسی، غیر اخلاقی اور غیر سفارتی ہے، اور اگر افغانستان ایسا قدم اٹھاتا تو پاکستان کیسا ردعمل دیتا؟ یہ سوال اہم ہے، مگر یک طرفہ۔ خلیل زاد جیسے سفارت کار جو کبھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے روحِ رواں تھے، اب جب پاکستان ایک نئی سمت میں سوچتا دکھائی دے رہا ہے تو اعتراض کی زبان بولنے لگے ہیں۔ درحقیقت یہ تنقید خود اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی اس چال نے بین الاقوامی حلقوں میں ارتعاش پیدا کیا ہے۔
روس، چین اور ایران کی خاموش حرکات اب بےصدائی کی حدیں پار کر چکی ہیں۔ روس نے طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کر کے اس بات کا عملی اظہار کیا کہ وہ اب صرف شام یا یوکرین تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی اپنی موجودگی ثابت کرنا چاہتا ہے۔ چین، جو خاموشی سے افغانستان کی معدنی دولت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے، اپنی معاشی طاقت کے بل بوتے پر وہاں قدم جما رہا ہے۔ ایران، جو طالبان سے نظریاتی اختلافات رکھتا ہے، اب ایک محتاط قربت اختیار کر چکا ہے، تاکہ اس کے مشرقی سرحدی مفادات محفوظ رہ سکیں۔ ان تینوں ریاستوں کی مشترک دلچسپیاں افغانستان کو ایک نئے محور میں بدل رہی ہیں، اور اس کے بیچ پاکستان کو اپنی جگہ متعین کرنا ایک نازک توازن کا کام ہے۔
ایسے میں امریکہ اور یورپ کی خاموشی اور بےرخی خود ایک سیاسی تفسیر ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کو ایک مکمل باب کے طور پر بند کر دیا ہے، اور اس خلا میں پاکستان نے قدم رکھ کر وہی کرنے کی کوشش کی ہے جو واشنگٹن پہلے خود کرتا رہا ہے۔ البتہ یہ کوشش آسان نہیں۔ پاکستان کے حالیہ سفارتی رویوں اور امریکہ کے ساتھ بدلتے روابط نے اس نکتے پر ایک بار پھر سوال اٹھا دیے ہیں کہ کیا پاکستان واقعی اب چین کے ساتھ اپنی "ہمیشہ کی دوستی” پر قائم ہے یا اب بھی مغرب کے دروازے پر آدھا قدم رکھا ہوا ہے؟ اس سوال کی بازگشت ہمیں حال ہی میں صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹن کی ناکام ملاقات میں بھی سنائی دیتی ہے، جس نے عالمی سفارت کاری کے بدلتے معیار اور کمزور ہوتی روایات کو بےنقاب کر دیا ہے۔
اس تمام صورتحال میں بھارت کا کردار نہایت باریک مگر انتہائی فیصلہ کن ہے۔ دہلی برسوں سے افغانستان میں سرمایہ کاری کے بہانے موجودگی قائم رکھے ہوئے ہے، مگر اس موجودگی کا اصل ہدف پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔ چاہے وہ پنجشیر کی خاموش حمایت ہو یا کابل کے بعض عناصر سے خفیہ روابط—بھارت کی کوشش ہے کہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک نیا سٹریٹجک محاذ بنا دے۔ اس تناظر میں پاکستان کا موجودہ قدم صرف کابل کے لیے نہیں، دہلی کے لیے بھی ایک غیر اعلانیہ پیغام ہے کہ وہ افغان میدان کو یک طرفہ تصور نہ کرے۔
پاکستان کو اس وقت اندرونی سطح پر بھی بےپناہ مسائل کا سامنا ہے۔ معیشت بحران کی گرفت میں ہے، سیاسی استحکام خواب سا لگتا ہے، اور دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے قومی اعصاب کو چوٹ پہنچائی ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر پائی جانے والی کشیدگی، سرحد پار حملے، اور سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اب صرف بیانات سے کام نہیں چلے گا۔ کابل کے ساتھ اگر سچّی شراکت داری ممکن نہیں تو پاکستان کو اپنی خودمختار حکمت عملی ترتیب دینی ہی ہوگی، چاہے وہ کتنی ہی غیر روایتی کیوں نہ ہو۔
پشتون بیلٹ، جو برسوں سے افغانستان اور پاکستان کے بیچ ایک نامرئی لکیر کی زنجیروں میں جکڑا رہا، اب ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ یہاں کے عوام کو محض تزویراتی کھیلوں کا مہرہ نہیں بلکہ امن اور ترقی کے اصل شراکت دار بننے کی ضرورت ہے۔ اگر اس خطے کو ایک بار پھر عسکریت، انتقام اور مداخلت کی سیاست کی نذر کیا گیا، تو اس کا بوجھ نہ صرف دو ریاستیں بلکہ دو نسلیں اٹھائیں گی۔
طالبان حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف قوت سے حکمرانی طویل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان جیسے ہمسائے کے ساتھ مخاصمت، اور علاقائی توازن کو نظر انداز کرنے کا انجام دوبارہ تنہائی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اگر وہ واقعی خود کو ایک باقاعدہ اور تسلیم شدہ ریاستی نظام کے تحت دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں سفارتی رویوں، ہمسائیگی کے آداب، اور بین الاقوامی توقعات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
پاکستان کا یہ اقدام چاہے جتنا بھی متنازعہ کیوں نہ ہو، اس میں ایک سنجیدہ پیغام چھپا ہوا ہے: یہ وہ لمحہ ہے جب پاکستان نے محض ردعمل سے آگے بڑھ کر پیشگی سوچنے کا حوصلہ کیا ہے۔ یہ ایک خاموش اعتراف بھی ہے کہ افغانستان کی سیاست کو صرف خواہشات سے نہیں، حکمت اور تجربے سے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔
اگر یہ حکمت عملی خطے میں توازن، امن اور سیکیورٹی کے نئے باب کھولتی ہے تو پاکستان ایک نئے سیاسی قد کا حامل ہو سکتا ہے۔ اور اگر یہ صرف ایک وقتی دباؤ کی پیداوار ہے، تو پھر یہ فیصلہ مزید الجھنوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ اسلام آباد کی یہ خاموش چال ایک جیت کا آغاز تھی یا ایک نئے دلدل کی شروعات۔