ایران و روس اور پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان میں ملتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ دہشت گردی کےحالیہ تین بڑے واقعات گوادر پورٹ کمپلیکس ، پاکستان ائیر بیس تربت، اور شانگلہ خودکش حملے میں مماثلت نظر آرہی ہے۔ اگر چہ دہشت گرد گروپ الگ الگ ہیں لیکن نشانہ سی پیک اور چینی مفادات ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ بہت سے ممالک نہیں چاہتے کہ سی پیک کامیاب ہو، بشام میں چینی انجینئروں پر حملہ بالکل 2021 میں کوہستان میں چینئی انجنیئروں پر ہونے والے حملے کا تسلسل لگ رہا ہے جس میں 9 چینئی انجنئیر ہلاک ہوگئے تھے اور اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس شواہد ہیں کہ اس کے پیچھے ہندونستان اور ان کی حفیہ ایجنسی را ہے۔ اس حملے میں بھی ٹی ٹی پی کے دہشت گرد ملوث تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات تو اپنی جگہ موجود ہے کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو پناہ دے رکھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ٹی ٹی پی کو سپورٹ کریں گے کہ پاکستان کے اندر چین کے مفادات کو نشانہ بنائے جبکہ اس وقت چین اور طالبان کے تعلقات بہت بہتر ہیں اور طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف چین ہی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں ۔
چین کے حفیہ ادارے بھی تحقیقات کر رہے ہوں گے کہ اس میں کون ملوث ہے۔ اگر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس میں طالبان ملوث ہیں تو چین اور طالبان کے تعلقات خراب ہوں گے اور پاکستان بھی چین کو کہے گا کہ جب تک افغانستان میں دہشت گردی کی پناہ گاہیں موجود ہیں طالبان سے تعاون نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور بھارت کھلے عام سی پیک کے مخالفت کررہے ہیں۔ اور ان واقعات میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران میں دھماکے، ماسکو دھماکے اور پاکستان میں جاری دہشت گردی کے تانے بانے جا کر افغانستان میں ملتے ہیں۔ یو این کی رپورٹس موجود ہیں کہ افغانستان سے داعش ، ٹی ٹی پی، القاعدہ سمیت باقی دہشت گرد تنظیمیں کارروائیاں کررہی ہیں اور یہی پاکستان اور خطے کے باقی ممالک کا خدشہ ہے کہ خطے میں ایک بہت بڑی سٹریٹیجک گیم کھیلی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر چینی مفادات کو نشانہ بنانے کا وقت بھی بہت اہم ہے جب سی پیک پر بہت عرصے سے کام اس رفتار سے نہیں ہوا ہے اور جب نئی حکومت نے سی پیک پر کام کا رفتار تیز کرنے کا ارادہ کیا ہے تو یہ واقعات رونما ہونے لگیں ہیں۔ اس سے ظاہر ہور ہا ہے کہ کچھ قوتیں ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاکستان اور چین کا اقتصادی تعاون آگے بڑھے۔ یہ قوتیں خطے میں بدامنی برقرار رکھنا چاہتی ہیں تاکہ چین اقتصادی طور پر امریکہ پرفوقیت حاصل نہ کر سکے۔
انہوں نے کہ پاکستان نے افغان طالبان پر پریشر ڈالنے کیلئے تمام آپشن استعمال کئے تاکہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کیخلاف کارروائیوں سے روکا جاسکے لیکن غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی، کاروباری ویزے کی شرائط ، پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں سختیاں لانے کے باوجود ٹی ٹی پی کے حملوں میں تسلسل برقرار ہے۔
ٹی ٹی پی کے ایشو پر افغان طالبان اور پاکستان کی دو مختلف پوزیشن ہے، پاکستان چاہتاہے کہ افغان طالبان اس مسئلے کو خود حل کریں جبکہ طالبان چاہتے ہیں کہ پاکستان بات چیت کے ذریعے ٹی ٹی پی کے ایشو کو خود حل کرے جس سے لگ رہاہے کہ مشکل ہے کہ حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ داعش کے بارے روس کا یہی موقف رہا ہے کہ داعش کو امریکہ عراق اور شام سے لایا تھا تاکہ اس خطے سے نکلنے کے بعد یہ خطہ بدامنی کا شکار رہے۔ لیکن افغانستان میں داعش نے امریکہ کو بھی نشانہ بنایا ہے اور طالبان کیخلاف بھی کارروایئاں کررہی ہے۔ داعش پاکستان میں بھی حملوں میں ملوث ہے۔ یہ بات طے ہے کہ دہشت گرد تنظییوں کیخلاف سب کو مل کر لڑنا ہوگا۔
انہوں نے کہ بلوچ تنظیموں کے ٹی ٹی پی سے روابط اور اپنی کارروائیوں میں خودکش بمباروں کو استعمال بھی ایک چینلج بن گیا ہے۔