چھتیس گڑھ میں مسیحی قبائل پر حملے پر مودی سرکار کی مجرمانہ خاموشی اور اقلیت دشمن پالیسیاں بھی بے نقاب ہو گئیں ۔
چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقوں میں مسیحی خاندانوں پر ہندوتوا گروہوں کے حملے معمول کا حصہ بن گئے،خواتین اور بچے ہدوتوا کے نشانے پرآگئے ۔
دی وائر کے مطابق حملوں میں مسیحی کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور، انکار کی صورت میں انہیں تشدد، بائیکاٹ اور جلاوطنی کا سامنا ہے ۔
دی وائر کا کہنا ہے کہ چھتیس گڑھ کے ضلع کوارڈھا میں 18 مئی کو ہندوتوا ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد مسیحی اسکول چلانے والا خاندان جان بچا کر چھپنے پر مجبور ہیں ۔
دی وائر کا مزید کہنا ہے کہ "جے شری رام” کے نعروں کے ساتھ 100 سے زائد بجرنگ دل کے غنڈوں کا چرچ پر حملہ،عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ، خواتین و بچوں پر تشدد معمول بن گیا ۔
دوسری جانب مسیحی شہریوں کا کہنا ہے کہ میری والدہ اور بھائی پر تشدد اور والد کو گرفتار کیا گیا ہم چھپنے پر مجبور ہیں، پولیس شکایت درج نہیں کر رہی ۔
دی وائر نے مزید بتایا ہے کہ مودی کی زیر سرپرست پولیس کی جانب سے مظلوم اقلیتوں کی شکایات کو نظر انداز کرنے کی کوششیں جاری، حملہ آوروں کی پشت پناہی ۔
پولیس نہ صرف حملہ روکنے میں ناکام رہی بلکہ متاثرین کو زبردستی بیان بدلنے پر مجبور کیا گیا، حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس نے ضبط کر لی تاکہ منظر عام پر نہیں لائی جا سکے ۔
دی وائر کے مطابق مودی سرکار کے ماتحت ہندوتوا غنڈوں اور تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، جو اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات چلا رہی ہیں ۔
دی وائر نے بتایا ہے کہ مسیحی قبائلیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جاتا ہے جبکہ انہیں جنگلات میں پناہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔
دوسری جانب سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حملے مذہبی نہیں، سیاسی مقاصد کے تحت اقلیتوں کو دبانے اور ووٹ بینک مضبوط کرنے کی کوشش ہیں ۔