مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف اللہ نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا نہیں اس بات کا فیصلہ وفاقی حکومت کرے گی۔ وہ خیبرنیوز کے پروگرام کراس ٹاک میں میزبان سید وقاص شاہ سے بات چیت کر رہے تھے۔ بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے، الیکشن میں دھاندلی نہیں بلکہ فراڈ کیا گیا ہے، اتحادی جماعتوں کے آپس میں اختلافات رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے حقوق کیلئے وفاقی حکومت سے ورکنگ ریلیشن رکھیں گے اور سی سی آئی سمیت تمام فورمز پر شرکت کو یقینی بنائیں گے۔ ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے ہر فورم کا استعمال کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کیخلاف بہت پروپیکنڈا کیا گیا لیکن ان کے تمام دعوے غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ ماضی کی طرح ان کی سازشیں ہمیشہ ناکام رہیں گے۔ پی ٹی آئی کے سینکڑوں خواتین پچھلے کئی مہینوں سے جیلوں میں ہیں لیکن ان ناانصافیوں پر ہماری عدالتیں بھی خاموش ہیں۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ صوبائی حکومت کا انتقامی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا ہے کہ انتقامی کارروائی نہیں قانونی کارروائی ہوگی۔
محسن نقوی کو وزیر داخلہ بنانے اور انورالحق کاکڑ کو بھی اہم عہدہ دینے کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں گورنمنٹ سیٹ اپ میں رکھنے سے اتحادی جماعتوں کو یہ پیغام دیا جارہاہے کہ آپ لوگوں کی یہی حیثیت ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ پی پی پی انورالحق کاکڑ کو کبھی بھی چئیرمین سینیٹ قبول نہیں کرے گی بلکہ پی پی پی یوسف رضا گیلانی کو چیئر مین سینیٹ بنانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحت کارڈ کے استعمال کو شفاف بنایا جائیگا۔ وہ ہسپتال جہاں پر صحت کارڈ کا استعمال ممکنہ طور پر غلط ہوا ہے انہیں لسٹ سے نکالی دیا گیا ہے۔ پشاور میں دھاندلی میں ملوث اہلکاروں کیخلاف قانونی کارروائی ہوگی۔الیکشن کمیشن مکمل طور پر الیکشن فراڈ میں ملوث تھا الیکشن کمیشن سے انصاف کی امید بلکل بھی نہیں۔ اسٹیبلمشمنٹ سے ہمارا کوئی مسئلہ نہیں، فوج ہماری اپنی فوج ہے۔
خیبر پختونخوا کابینہ عمران خان نے فائنل کی ہے، علی امین گنڈاپور نے جن افراد کو کابینہ میں شامل کیا ہے انہیں عمران خان کی رضامندی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پر تنقید کے بجائے مخالف سیاسی جماعتیں اپنی اپنی پارٹیوں میں رائج نظام اور اقربا پروری کو دیکھیں۔
بیرسٹر سیف نے پروگرام میں مزید کہا کہ اگر طالبان سے مذاکرات کرنا ہوئے تو اس کا فیصلہ وفاقی حکومت کرے گی۔ یہ صوبائی حکومت کا مینڈیٹ نہیں کہ خود مذاکرات کرے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے صوبائی حکومت پولیس کو مزید مظبوط کرے گی۔