بھارت ایک مرتبہ پھر اپنی داخلی نااہلیوں اور پالیسی ناکامیوں کا الزام پاکستان پر ڈال کر اپنے ضمیر کو تسلی دینے کی لاحاصل کوشش کر رہا ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی وہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے امکانات پر غور کر رہا ہے، مگر یہ ایک ایسا اقدام ہے جو نہ صرف ناقابلِ عمل ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہوگی۔
سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جو ستمبر 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا۔ اس تاریخی معاہدے پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان نے دستخط کیے۔ یہ معاہدہ تین مغربی دریاؤں — سندھ، جہلم اور چناب — کو پاکستان کے حوالے کرتا ہے جبکہ تین مشرقی دریاؤں — راوی، بیاس اور ستلج — بھارت کے زیرِ انتظام رہتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو دریاؤں کے کل پانی کا تقریباً 80 فیصد حصہ حاصل ہے۔
معاہدے کی قانونی نوعیت اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے آرٹیکل 12(4) کے مطابق یہ صرف اسی صورت ختم ہو سکتا ہے جب دونوں ممالک تحریری طور پر اس پر متفق ہوں۔ یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل یا منسوخ کرنا نہ صرف معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے بھارت کی قانونی ساکھ پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ اس معاہدے میں کسی بھی یکطرفہ معطلی یا تنسیخ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ یہ ایک غیر معینہ مدت تک لاگو رہنے والا معاہدہ ہے، جس کی حیثیت محض وقت یا سیاسی حالات سے مشروط نہیں ہے۔
بھارت کی جانب سے معاہدے کو معطل کرنا نہ صرف مستقل انڈس کمیشن یا بین الاقوامی ثالثی کے طے شدہ طریقہ کار کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ یہ خود اس معاہدے کی روح کے بھی منافی ہے۔ اس معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگوں، سیاسی کشیدگیوں اور تنازعات کے باوجود اپنی حیثیت برقرار رکھی ہے، جو اس کی قانونی و اخلاقی حیثیت کو مزید تقویت دیتا ہے۔
اگر بھارت پانی کی روانی کو روکنے کے لیے معاہدے سے انحراف کرتا ہے تو یہ عمل نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ خطے میں ایک خطرناک نظیر بھی قائم کرے گا۔ پاکستان اس اقدام کو ’’معاہدے کی خلاف ورزی‘‘ تصور کرے گا جبکہ بھارت اسے ’’معاہدے کی معطلی یا منسوخی‘‘ قرار دینے کی کوشش کرے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر بھارت دریاؤں کا پانی روکنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو کیا یہ قدم چین کے لیے بھی ایک مثال بنے گا؟ چین برہمپترا دریا کے معاملے پر اسی بھارتی طرزِ عمل کا حوالہ دے سکتا ہے۔
بین الاقوامی آبی قانون کے مطابق بالا دستی رکھنے والا ملک (جیسے بھارت) زیریں ملک (جیسے پاکستان) کے پانی کو روکنے کا کوئی جواز نہیں رکھتا، خواہ معاہدہ موجود ہو یا نہ ہو۔ بھارت اگر اس سمت میں قدم اٹھاتا ہے تو وہ بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا رجحان قائم کرے گا جو خود اس کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔
بھارت کی حالیہ حرکتوں میں مزید اشتعال انگیزی دیکھی گئی ہے۔ اس نے پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی اٹاری بارڈر کو بند کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ تاہم یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سرحد بند کی گئی ہو؛ اس سے قبل بھی یہ تقریباً نو مرتبہ بند کی جا چکی ہے۔
سندھ طاس معاہدہ نہ صرف ایک قانونی دستاویز ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان آبی تعاون کی بنیاد بھی ہے۔ بھارت کی حالیہ کوششیں ایک طرف اس کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو ظاہر کرتی ہیں اور دوسری طرف یہ خطے میں پانی کے بحران کو مزید سنگین کر سکتی ہیں۔ اس تناظر میں عالمی برادری، خاص طور پر عالمی بینک کو، چاہیے کہ وہ بھارت کو یاد دلائے کہ وہ اس معاہدے کا ضامن ہے اور کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں فوری مداخلت کرے۔
سندھ طاس معاہدے کی حیثیت آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی 1960 میں تھی، اور اس کی خلاف ورزی نہ صرف قانونی پیچیدگیاں پیدا کرے گی بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک نئے بحران کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔