ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں فائرنگ کے واقعے میں دس سالہ بچی سمیت پانچ افراد کی ہلاکت نے علاقے میں کشیدگی کو جنم دیا ، فائرنگ کے واقعے بعد ایک اہم جرگے کا انعقاد کیا گیا جہاں قبائلی عمائدین نے اپنے مطالبات پیش کئے ۔
اس سانحے کے بعد مقامی قبائلی عمائدین نے ایک جرگے کا انعقاد کیا جس میں سیکیورٹی فورسز کے اقدامات کے خلاف پانچ اہم مطالبات پیش کیے گئے ۔
ان مطالبات میں شامل تھا کہ دس سالہ بچی کے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے، سیکیورٹی فورسز کی جانب سے قبضے میں لیے گئے مقامی شہریوں کے گھروں کو پندرہ روز میں خالی کیا جائے، مقامی آبادی پر ڈرون کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے، چیک پوسٹوں پر شہریوں کو غیر ضروری ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے، اور فائرنگ سے جاں بحق افراد کے لواحقین کو مالی معاونت فراہم کی جائے ۔
جرگے کے دوران سیکیورٹی حکام نے بعض مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے اقدامات کا اعلان کیا۔ بریگیڈیئر کی جانب سے ہر شہید کے لواحقین کو 15 لاکھ روپے اور ہر زخمی کو 2 لاکھ روپے معاوضے کی پیشکش کی گئی ۔
اس کے علاوہ زخمیوں کے مفت علاج کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ تاہم، سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور مکانات خالی کرنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا گیا، جنہیں حکام نے "قبل از وقت” قرار دیا ۔
یہ واقعہ علاقے میں سیکیورٹی فورسز اور مقامی آبادی کے درمیان اعتماد کے فقدان کو اجاگر کرتا ہے، قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ ان مطالبات پر عمل درآمد سے نہ صرف انصاف کی فراہمی ممکن ہوگی بلکہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہو سکتی ہے ۔
دوسری جانب، سیکیورٹی حکام کا موقف ہے کہ حالات کی حساسیت کے پیش نظر بعض مطالبات پر فوری عمل ممکن نہیں۔ اس تنازع نے وادی تیراہ میں کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے، اور مقامی آبادی اب جرگے کے نتائج پر عمل درآمد کی منتظر ہے ۔