بھارت کی جانب سے حالیہ دنوں میں پاکستان میں کی جانے والی ڈرون دراندازیاں بظاہر عسکری سرگرمیوں کا حصہ دکھائی دیتی ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان حملوں کا مقصد کوئی جنگی کامیابی حاصل کرنا نہیں، بلکہ میڈیا پر ڈرامائی مناظر کے ذریعے ایک نفسیاتی جنگ چھیڑنا ہے، جس کا ہدف پاکستانی عوام کی رائے، اعتماد اور جذبات پر اثر انداز ہونا ہے۔ یہ کارروائیاں محدود صلاحیت کے حامل اسرائیلی ساختہ ڈرونز کے ذریعے کی جاتی ہیں، جن میں نہ تو طویل پرواز کی استطاعت ہے اور نہ ہی خاطر خواہ ہتھیار لے جانے کی صلاحیت۔ ان کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2023 اور 2024 کے دوران ہونے والی 22 میں سے 95 فیصد دراندازیاں یا تو بروقت ناکام بنا دی گئیں یا مکمل طور پر جام کر دی گئیں۔
بھارت کی جانب سے یہ حملے نہ صرف عسکری لحاظ سے غیر مؤثر ہیں بلکہ عالمی قوانین، خاص طور پر جنیوا کنونشن، کی کھلی خلاف ورزی بھی ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہری مراکز اور آزاد کشمیر کے غیر فوجی علاقوں کو نشانہ بنانا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ اس کا مقصد خطے میں مزید بدامنی اور بے یقینی کو ہوا دینا ہے۔ بھارت کی یہ روش اس کی مقبوضہ کشمیر میں جاری پالیسیوں کا تسلسل ہے، جہاں 1989 سے اب تک 90 ہزار سے زائد بے گناہ شہری شہید ہو چکے ہیں۔
7 مئی کو پاکستان کی طرف سے دیا گیا جواب نہ صرف ایک طاقتور عسکری اقدام تھا بلکہ اس میں بردباری، حکمت اور بین الاقوامی ذمہ داری کا مظاہرہ بھی شامل تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا کہ وہ اشتعال انگیزی کا شکار ہونے کے بجائے، اپنے وقت اور طریقے کے مطابق قانونی، اخلاقی اور عسکری طور پر مؤثر جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کا یہ طرزِ عمل خوف یا کمزوری نہیں بلکہ ایک جوہری طاقت کے طور پر اس کی سنجیدہ اسٹریٹجک سوچ اور پرامن ترجیحات کا مظہر ہے۔ خطے میں 300 سے زائد ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں عقل مندی اسی میں ہے کہ کشیدگی کو ہوا دینے کے بجائے اسے سنبھالا جائے۔
بھارت کی کوشش ہے کہ وہ عوام میں احساس عدم تحفظ اور افواج پر شکوک و شبہات پیدا کرے۔ اسی سلسلے میں 7 اور 8 مئی کی درمیانی رات بھارت نے اپنی اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ بھارت نے امرتسر میں پرتھوی میزائل کا ملبہ گرا کر الزام پاکستان پر عائد کرنے کی ناکام کوشش کی، جو درحقیقت سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی ایک مذموم سازش تھی۔
یہ تمام کارروائیاں اس بات کی غماز ہیں کہ بھارت کی جنگی حکمت عملی اب براہِ راست محاذ پر لڑنے کے بجائے نفسیاتی اور غیر روایتی میدانوں میں منتقل ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال بھارت نے 20 سے زائد ڈرون حملے کیے، جن کا مقصد روایتی جنگ کے خطرات سے بچتے ہوئے دور سے حملے کر کے مقامی سطح پر خوف اور غیر یقینی صورتحال پیدا کرنا تھا۔ تاہم، پاکستان نے 7 مئی کو جس انداز میں عسکری مہارت، نظم و ضبط اور دور اندیشی سے جواب دیا، اس سے یہ واضح ہو گیا کہ پاکستان کی عسکری حکمت عملی وقتی ردعمل پر مبنی نہیں، بلکہ ایک دیرپا توازن، قانونی جواز اور بھرپور تیاری پر استوار ہے۔
پاکستان کی یہ جوابی کارروائی کسی طور پر محض علامتی نہیں تھی بلکہ ایک مکمل، موثر اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے کی گئی عسکری کاروائی تھی۔ آنے والے دنوں میں اگر بھارت کی جانب سے اسی قسم کی اشتعال انگیزیاں جاری رہیں، تو پاکستان کا جواب بھی نہ صرف قانونی ہوگا بلکہ حد بندی سے ماورا، غیر معمولی دقت اور قوت کا حامل ہو گا۔
ایسے حالات میں پوری قوم کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ افواج پاکستان کو مکمل اعتماد، حمایت اور اخلاقی پشتیبانی حاصل رہے۔ بھارت کی نفسیاتی جنگ کو صرف اسی وقت شکست دی جا سکتی ہے جب قوم ایک صف میں کھڑی ہو، ہوش مندی اور حقیقت پسندی کو اپنا شعار بنائے، اور افواجِ پاکستان کے ساتھ بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کرے۔