ایران اور اسرائیل کے درمیان شدت اختیار کرتا تنازعہ محض جنگی کشمکش نہیں بلکہ نظریات، بقا کی جبلت، اور عالمی صف بندیوں کا ایک فیصلہ کن موڑ ہے ۔ جب ایک طرف میزائل فضا کو چیرتے ہیں اور دوسری جانب سفارتی بیانات دھمکیوں میں بدلتے ہیں، تو اصل میں ایک ایسا کھیل کھیلا جا رہا ہے جو مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل سکتا ہے اور دنیا کی طاقتوں کا توازن ہلا سکتا ہے ۔
ایران اور اسرائیل دونوں نظریاتی طور پر شدید بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ ایران کے لیے تنہائی قید بن چکی ہے، اور اب زندہ رہنے کا واحد راستہ تصادم نظر آتا ہے ۔ اسرائیل، جو ہمیشہ محاصرے کی ذہنیت میں زندہ رہا ہے، ہر خطرے کو وجودی سمجھتا ہے ۔ اور اب دونوں فریق کسی سمجھوتے کو کمزوری سمجھتے ہیں ۔ وہ فیصلہ کن نتیجے کے خواہاں ہیں ۔
حالیہ حالات اچانک نہیں بنے ۔ ایران کا اسرائیل پر براہ راست حملہ اس بات کا اعلان ہے کہ وہ اب پردے کے پیچھے نہیں لڑے گا۔ اسرائیل کی ایران کے اندر ضرب واضح پیغام ہے کہ نمائندوں کے ذریعے جنگ اب کافی نہیں۔ دونوں فریق تیزی سے ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو مستقبل کے منظرنامے کو ناقابلِ واپسی بنا سکیں ۔
اس عسکری تصادم کی تہہ میں ایک بڑی سٹریٹجک ترتیب بھی چھپی ہے ۔ مغربی دارالحکومت—واشنگٹن، لندن، پیرس، تل ابیب—اب ایران کو محض قابو میں رکھنے پر قناعت نہیں کر رہے ۔ وہ ایک ایسا نیا مشرقِ وسطیٰ تشکیل دینا چاہتے ہیں جہاں ایران کا اثر زائل ہو، اور بھارت جیسے "معتدل” اتحادی کو علاقائی قیادت سونپی جائے ۔
لیکن ایران، اس منظرنامے کو بھانپتے ہوئے، اس وقت کو اپنا آخری موقع سمجھ رہا ہے ۔ اگر وہ اس بحران سے باوقار طریقے سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا تو نہ صرف پابندیاں توڑ سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر باعزت حیثیت سے واپس آ سکتا ہے ۔ اگر ناکام ہوا تو ایرانی ریاست کا موجودہ ڈھانچہ بکھر سکتا ہے ۔ اسی لیے تہران اور اس کے اتحادی، بشمول حزب اللہ، حوثی، اور عراقی ملیشیا، مکمل طور پر تیار کھڑے ہیں ۔
اصل خطرہ اب خطے کی مکمل شمولیت کا ہے ۔ لبنان جلنے کو ہے ۔ شام مسلسل غیر مستحکم ہے ۔ خلیجی ریاستیں عوامی طور پر محتاط مگر نجی طور پر اس جنگ کی تیاری میں ہیں ۔ پاکستان، جس کی پوزیشن انتہائی نازک ہے، معاشی دباؤ، فرقہ واریت، اور بیرونی چالوں کے باعث اس طوفان میں کھنچ سکتا ہے ۔ اس کا غیر جانبدار رہنا شاید ممکن نہ رہے ۔
اس سے بھی بڑا اندیشہ یہ ہے کہ یہ جنگ عالمی سطح پر پھیل سکتی ہے ۔ ایران-اسرائیل تصادم پوری دنیا کو نئی صفوں میں بانٹ سکتا ہے: نیٹو بمقابلہ برکس، امریکہ بمقابلہ چین، جمہوریتیں بمقابلہ سٹریٹجک آمرانہ ریاستیں ۔ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ یوریشیا کے مرکز میں آگ لگا سکتی ہے ۔
اب بھی وقت ہے ۔ اب بھی تدبر اور حکمت کی ضرورت ہے ۔ لیکن یہ موقع تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ آئندہ چند ہفتوں کے فیصلے نہ صرف اس جنگ کا انجام طے کریں گے بلکہ آئندہ عالمی نظام کی بنیاد بھی رکھیں گے ۔