تحریر: افضل شاہ میاں: ۔
خیبر پختونخوا کی سیاسی تاریخ صوبے کے جغرافیائی، قبائلی اور فکری تنوع کا آئینہ دار ہے ۔
خیبر پختونخوا، جو کبھی شمال مغربی سرحدی صوبہ (NWFP) کہلاتا تھا، 1937ء سے اب تک کئی بار سیاسی و جغرافیائی تبدیلیوں سے گزرا ہے ۔ اس طویل تاریخ میں متعدد پختون رہنما وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، جن کا تعلق مختلف اضلاع اور قبائل سے رہا ۔ تاہم ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آج تک اس صوبے کی وزارتِ اعلیٰ آفریدی قبیلے کے کسی فرد کے حصے میں نہیں آئی حالانکہ یہ قبیلہ نہ صرف عددی طور پر بڑا ہے بلکہ تاریخی، عسکری اور تجارتی اعتبار سے بھی انتہائی نمایاں حیثیت رکھتا ہے ۔
1937ء میں جب اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (NWFP) میں پہلی مرتبہ صوبائی حکومت قائم ہوئی تو ڈاکٹر خان صاحب، جو مردان سے تعلق رکھتے تھے، پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔ اس کے بعد سے اب تک صوبے کے مختلف علاقوں اور قبائل کے نمائندے اس اعلیٰ منصب تک پہنچے ۔
اگر صوبے کے جغرافیائی نقشے کو سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو قیادت ہمیشہ چند مخصوص اضلاع میں محدود رہی ہے ۔ مردان اس حوالے سے سب سے نمایاں ضلع ہے جس نے تین وزرائے اعلیٰ دیے — ڈاکٹر خان صاحب، افضل حیات ہوتی اور امیر حیدر خان ہوتی ۔ اس کے بعد نوشہرہ سے پرویز خٹک، چارسدہ سے آفتاب احمد خان شیرپاؤ، ڈیرہ اسماعیل خان سے دو وزرائے اعلیٰ یعنی سر عبدالقیوم خان اور علی امین گنڈاپور، بنوں سے اکرم خان درانی، سوات سے محمود خان، ہزارہ (مانسہرہ) سے پیر صابر شاہ اور کوہاٹ سے نگران وزیر اعلیٰ عارف بنگش سامنے آئے ۔
یوں صوبے کی کل 38 اضلاع میں سے صرف آٹھ اضلاع ایسے ہیں جن کے نمائندے اس منصب تک پہنچے، جبکہ باقی اضلاع کبھی اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکے ۔ ان میں خیبر، پشاور، باجوڑ، مہمند، کرم، شمالی و جنوبی وزیرستان، ٹانک، لکی مروت، کرک، بونیر، شانگلہ، دیر بالا، دیر پائیں، تورغر، بٹگرام، ایبٹ آباد، ہری پور، چترال اور مالاکنڈ شامل ہیں ۔
ان علاقوں کے عوام اکثر صوبائی فیصلوں میں نظر انداز کیے گئے، حالانکہ ثقافتی، دفاعی اور جغرافیائی لحاظ سے ان کا کردار کلیدی رہا ہے ۔
آفریدی قبیلہ جس کا مرکز ضلع خیبر ہے، صدیوں سے قبائلی سیاست، دفاعی روایات اور سرحدی استحکام میں اہم کردار ادا کرتا آیا ہے ۔ حاجی شاہ جی گل آفریدی، اقبال آفریدی، اور قیصر جمال جیسے رہنما قومی اسمبلی اور سینیٹ تک تو پہنچے مگر صوبائی اقتدار کے ایوانوں میں ان کی نمائندگی محدود رہی ۔
2018ء میں سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ نئے قبائلی اضلاع سے قیادت ابھرے گی، مگر سیاسی طور پر ابھی تک ان اضلاع کا وزن صوبائی سیاست میں نہیں بڑھ سکا ۔
خیبر پختونخوا کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اقتدار ہمیشہ ان اضلاع کے گرد گھومتا رہا جن کے پاس مضبوط جماعتی ڈھانچے، تعلیمی ادارے اور منظم ووٹر بیس موجود تھا ۔ مردان، نوشہرہ اور چارسدہ اس لحاظ سے ہمیشہ مرکزی رہے، جبکہ جنوبی اضلاع جیسے بنوں اور ڈیرہ مذہبی سیاست کے مرکز کے طور پر سامنے آئے ۔ شمالی اور قبائلی علاقے انتظامی علیحدگی اور کمزور سیاسی ڈھانچے کی وجہ سے صوبائی طاقت کے دائرے سے باہر رہے ۔ آج جبکہ خیبر، مہمند، باجوڑ، کرم اور وزیرستان جیسے اضلاع خیبر پختونخوا کا باضابطہ حصہ بن چکے ہیں، تو یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ مستقبل میں ان علاقوں سے بھی قیادت ابھر سکتی ہے ۔
آفریدی، وزیر، محسود، شنواری اور دیگر قبائل اگر صوبائی سیاست میں متحرک کردار ادا کریں تو خیبر پختونخوا کی قیادت پہلی مرتبہ پورے صوبے کی حقیقی نمائندگی کی حامل ہو گی ۔ تاہم تاحال زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کا محور مردان، نوشہرہ، چارسدہ، بنوں، ڈیرہ اور سوات تک محدود ہے ۔
اس پس منظر میں اگر آئندہ انتخابات میں قبائلی اضلاع سے کسی آفریدی یا وزیر قبیلے کے رہنما کا ابھرنا ممکن ہوا، تو یہ نہ صرف خیبر پختونخوا کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا باب ہو گا بلکہ صوبے کے اقتدار کی جغرافیائی تقسیم میں ایک بڑی تبدیلی کا آغاز بھی ثابت ہو گا ۔
خیبر پختونخوا کی سیاسی تاریخ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اقتدار ہمیشہ مخصوص جغرافیائی و قبائلی حلقوں میں گردش کرتا رہا ہے ۔
مگر بدلتے سیاسی حالات اور قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد اب ممکن ہے کہ آئندہ دہائیوں میں صوبے کی وزارتِ اعلیٰ پر آفریدی قبیلے کا کوئی فرد بھی فائز ہو — تاکہ خیبر پختونخوا کی قیادت واقعی پورے صوبے کی نمائندہ کہلائے ۔