خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ لیکن وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور بدانتظامی اور بدنظمی کی تمام ذمہ داری وفاق پر ڈال کر خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عوام کب تک ان کھوکھلے بیانیوں اور جھوٹے دعووں کو برداشت کرے گی؟
خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال صوبائی حکومت کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ ہر سال پولیس، سی ٹی ڈی اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو اربوں روپے دیے جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کا آزادانہ گھومنا پھرنا اور افغان سرزمین سے آئے غیر قانونی عناصر کا صوبے میں کھلے عام آزادانہ عمل درآمد کرنا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر علی امین گنڈا پور حکومت اتنی بھی اہلیت نہیں رکھتی کہ وہ ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کرے، تو پھر حکومت کا مقصد کیا ہے؟
چند دن قبل 40 ارب روپے کی کرپشن کا ایک سکینڈل سامنے آیا، جو پی ٹی آئی کی مالی بدعنوانی کی صرف ایک جھلک ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کرپشن کا ذمہ دار کون ہے؟ کون وہ ہے سیاسی رہنما جس نے اپنے ہی صوبے کو دہشت گردوں اور کرپٹ مافیا کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے؟ عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ٹیکس کے پیسے دہشت گردوں، افغان پراکسیز اور سیاسی مفاد پرستوں کو کیوں دیے جا رہے ہیں؟
یہ لمحہ فکریہ ہے خاص طور پر اس لیے کہ ایک ایسا صوبہ جو فرنٹ لائن پر ہے، وہ قیادت کے فقدان، بدعنوانی، اور دہشت گردوں کی سرپرستی کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ اگر اب بھی خاموشی رہی تو یہ آگ صرف کے پی کے تک محدود نہیں رہے گی۔