اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے تہران کے وسط میں کیے گئے ایک انتہائی سنگین فضائی حملے نے پورے خطے میں ہلچل مچا دی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ حملہ ایران کے حساس ترین کمانڈ سینٹر پر کیا گیا، جو تہران کے قلب میں واقع تھا۔ اس حملے میں ایران کے چیف آف وار سٹاف جنرل علی شادمانی شہید ہو گئے، جو نہ صرف ایرانی مسلح افواج کے سب سے اعلیٰ آپریشنل کمانڈر تھے بلکہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے نہایت قریبی مشیر بھی تصور کیے جاتے تھے۔ علی شادمانی ایرانی ایمرجنسی کمانڈ سینٹر کے سربراہ تھے، جہاں سے ایران کی تمام جنگی حکمت عملیوں اور آپریشنز کی منظوری دی جاتی تھی۔
ایرانی ردعمل بھی فوری اور شدید تھا۔ ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے کرتے ہوئے انٹیلیجنس ہیڈکوارٹر ‘امان’ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایران کے حالیہ میزائل حملوں کے بعد اسرائیلی شہر رمت ہشرون اور ہرزیلیا میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ ان علاقوں کے رہائشیوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اسرائیلی شہریوں نے میڈیا کو بتایا کہ فضا میں شدید دھواں ہے اور سانس لینا دشوار ہو چکا ہے، جس نے عوام میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔
صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو براہِ راست سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایران نے اسرائیل پر میزائل حملے اور جنگی جرائم کا سلسلہ جاری رکھا تو خامنہ ای کا انجام بھی عراق کے سابق صدر صدام حسین جیسا ہو سکتا ہے۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ "ہم آج بھی تہران میں حکومتی اور عسکری اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں”۔ انہوں نے تہران کے شہریوں کو خبردار کیا کہ وہ ان علاقوں سے فوری نکل جائیں جن کی نشاندہی اسرائیلی فوج کی جانب سے فارسی زبان میں کی جا چکی ہے۔ کاتز کا کہنا تھا کہ ایران کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ امن چاہتا ہے یا اپنے لیڈر کا صدام جیسا انجام۔
اس مسلسل کشیدگی کے دوران مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا میں شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے پاکستان، سعودی عرب، عراق، قطر، مصر، اردن، کویت، الجزائر، بحرین اور دیگر مسلم ممالک نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اس اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایران پر 13 جون سے ہونے والے اسرائیلی حملے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ اعلامیہ میں تمام ممالک نے ریاستی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور پرامن بقائے باہمی پر زور دیتے ہوئے اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔ اعلامیہ میں واضح کیا گیا کہ اگر یہ صورتحال مزید بگڑتی ہے تو اس کے اثرات پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ صرف جنگ بندی نہیں بلکہ تنازع کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔ انہوں نے ایران کو سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایرانی فورسز نے امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ بنایا تو امریکہ انتہائی سخت ردعمل دے گا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو نائب صدر جے ڈی وینس اور مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو ایرانی حکام سے مذاکرات کے لیے بھیجا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب چین کے صدر شی جن پنگ نے ایک معنی خیز بیان میں کہا کہ دنیا اب امریکہ کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ انہوں نے عالمی طاقتوں کو تاریخ سے سبق لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر بڑی سلطنت، جو خود کو ناقابل شکست سمجھتی تھی، بالآخر زوال کا شکار ہوئی۔ شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ دنیا کا احترام کھو دے گا تو اس کا انجام بھی ان طاقتوں جیسا ہوگا جو خود کو ہمیشہ کے لیے ناگزیر سمجھتی تھیں مگر تاریخ کے صفحات میں دفن ہو گئیں۔
مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ میں حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری براہ راست جھڑپیں کسی بھی لمحے مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہیں، اور عالمی طاقتوں کے بیانات سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ دنیا ایک بار پھر ایک بڑی جنگ کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سفارتی کوششیں اس بھڑکتی ہوئی آگ کو روک پائیں گی یا دنیا ایک اور خونی باب لکھنے جا رہی ہے؟