یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حالیہ سوشل میڈیا پوسٹ میں پاکستان سمیت کئی ممالک کے شہریوں پر جنگ میں ملوث ہونے کا الزام، نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ سفارتی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ پاکستان نے فوری طور پر اس الزام کو نہایت سخت اور دوٹوک انداز میں مسترد کر کے واضح کر دیا ہے کہ یہ دعوے بے بنیاد، من گھڑت اور حقائق کے سراسر منافی ہیں۔ دفتر خارجہ کا مؤقف نہ صرف سنجیدہ اور منطقی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پالیسی کی شفافیت اور امن پسندی کا اظہار بھی کرتا ہے۔
یوکرین کی طرف سے کسی قسم کا باضابطہ رابطہ یا ٹھوس ثبوت پیش نہ کرنا، اس دعوے کی سچائی پر مزید سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اگر ایسے سنگین الزامات صرف سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے سامنے آئیں اور ان کے پیچھے کوئی قابلِ تصدیق شواہد نہ ہوں تو یہ بین الاقوامی تعلقات میں عدم اعتماد اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
یاد رہے، پاکستان پہلے بھی واضح کر چکا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق سفارتی اور پرامن حل کا حامی ہے۔ اس موقف کی بارہا تکرار پاکستان کی متوازن اور ذمہ دار خارجہ پالیسی کی عکاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر کئی ممالک بھی ایسے الزامات پر سنجیدگی سے سوال اٹھا رہے ہیں۔
مزید دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب دنیا بھر میں یوکرین کی جنگ کے تناظر میں مختلف ریاستیں اور غیر ریاستی عناصر پروپیگنڈا کے ذریعے اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں کسی ملک پر بغیر ثبوت الزام لگانا، خود یوکرینی قیادت کی ساکھ پر سوال اٹھا سکتا ہے۔