اسلام آباد(ارشداقبال) اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے صرف 3 ہی دور ہوئے اور چوتھے دور سے قبل ہی ختم ہو گئے ۔تحریک انصاف کا مطالبہ تھا کہ حکومت 9 مئی اور 26 نومبر کے معاملے پر عدالتی کمیشن بنائے اور بانی چیئرمین عمران خان سمیت تمام گرفتار پی ٹی آئی رہنماوں اور کارکنانوں کو رہا کیا جائے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ چوتھے راونڈ میں حکومتی کمیٹی بیٹھی رہی لیکن پی ٹی آئی کی کمیٹی مذاکراتی سیشن میں حاضر نہیں ہوئی ۔ یوں حکومت نے کمیٹی کا اجلاس ختم کردیا ۔پی ٹی آئی بضد رہی کہ کمیشن بھی بن جائے اور تمام قید مجرموں کو بھی رہا کیا جائے ۔اس کے علاوہ تحریک کوئی اور بات سننے کو ہی تیار نہیں ۔
اس کے بعد بھی وزیراعظم شہبازشریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی اور ان کے مطالبات کیلئے کمیشن کے بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش بھی کی لیکن پی ٹی آئی نے وزیراعظم کی مذکورہ پیشکش کو بھی ٹھکرادیا ۔
یہ تو سب کو علم ہے کہ یہ مذاکرات بھی تحریک انصاف ہی کے کہنے پر شروع ہوئے تھے اور یہ انہوں نے ہی ختم بھی کئے ۔ اب اگر یہ مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے تھے تو پھر اس کو شروع کرنے کا مطالبہ کیوں کیا ؟ اور اگر شروع ہی کردیئے تو پھر اس کو نامکمل ہی کیوں چھوڑ دیئے ؟ شائد اس کی وجہ یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی اپنی عادت سے مجبور ہیں ۔مذاکرات سے قبل ان کے پاس ایک راستہ تھا لیکن اب وہ بھی بند کردیا ۔
اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انکار اور وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے فرار کے بعد اب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو 349 صفحات پر مشتمل خط لکھ کر اگر بانی تحریک انصاف عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کی سزائیں ختم ہو جائیں گی یا وہ رہا ہو جائیں گے تو شائد یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے ۔
بانی پی ٹی آئی سے نہ تو وفاقی حکومت کی کوئی جنگ چل رہی ہے اور نہ ہی کسی اور کی، بلکہ انہوں نے اپنی حکومت میں جو کام کئے ہیں اب وہ اس کی سزا بھگت رہے ہیں ،یعنی قانون نے ان کو سزا دی ہے تو ان کی رہائی بھی قانون کے ذریعے ہی ہوگی ۔لیکن وہ قانون کا سامنا کرنے کے بجائے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور کبھی وفاقی حکومت کو اپنی کرتوت کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ سیاسی سوچ اور سیاسی جماعتوں کی طرح مذاکرات کرتے ، اپنی پارٹی کے رہنماوں کی سیاسی تربیت کرتے ،ان کو بتاتے کہ سیاست کرنی ہے تو کیسے کرنی ہے ، لیکن نہیں ، انہوں نے اپنے رہنماوں کو یہ سب کچھ نہیں بتانا اور نہ خود اس پر عمل کرنا ہے ، ہر وقت جارحانہ لب و لہجہ اور سوچ اچھے خاصے کام کو بگاڑ دیتے ہیں ۔
ہم کئی بار انہی صفحات بار بار یہی کہتے رہے ہیں کہ سیاستدانوں کے ساتھ سیاستدانوں کی طرح چلنا ہوتا ہے لیکن نہ کبھی عمران خان خود جارحانہ طرز سیاست چھوڑیں گے اور نہ ہی وہ اپنے اندر لچک پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو صوبائی صدارت سے ہٹاکر جنید اکبر کو یہ عہدہ دیا گیا ، اب جنید اکبر صاحب بھی اسلام آباد پر چڑھائی کی بات کرتے ہیں ۔ شائد عمران خان پارٹی کے ایک ایک رہنما کا امتحان لینے کی کوشش کر رہے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون سا لیڈر کتنے پانی میں ہے ۔
پی ٹی آئی جب تک وفاقی حکومت سے مذاکرات میں مصروف رہتی ، اتنا ہی ان کو کم سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑتا لیکن جونہی یہ مذاکرات سے بھاگے ہیں اب ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگر یہ یہی سوچ رہے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے ان کو باندھا گیا تھا اور وہ وفاق کے خلاف تحریک چلانے سے قاصر تھے تو یہ بھی ان کی بھول ہے ۔ اب یہ علی امین گنڈاپور کے بعد کسی کو بھی صوبائی صدارت دے ، یا پارٹی کی چیئرمین شپ دے یہ اب کبھی بھی اسلام آباد پر یلغار اور چڑھائی نہیں کر سکیں گے اس کی وجہ خود علی امین گنڈاپور ہیں ۔ اب اگر نئی قیادت اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کا سوچے گی تو دس بار سوچے گی اور آخر میں علی امین گنڈاپور کا تجربہ ان کو ضرور یار آئے گا ۔