اسلام آباد:(افضل شاہ یوسفزئی) ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان اپنی دولت کا ایک حصہ جو عموماً 2.5 فیصد کے قریب ہوتا ہے زکوٰۃ کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں شامل ہے۔ 2024 میں کیے گئے ایک سروے کے ابتدائی نتائج زکوٰۃ کی سماجی اور معاشی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس سروے میں 7500پاکستانیوں کا انٹرویو کیا گیا، جس سے زکوٰۃ کی تقسیم اور اس کے اثرات کے بارے میں کئی اہم حقائق سامنے آئے۔
پاکستانی ہر سال 619 ارب روپے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو ملک کے سب سے بڑے ریاستی کیش ٹرانسفر پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (598 ارب روپے) سے بھی زیادہ ہے۔ یہ رقم وفاقی ایکسائز ڈیوٹی (576 ارب روپے) اور بین الاقوامی ترقیاتی امداد (2022) کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ اوسطاً ہر زکوٰۃ دہندہ نے 2024 میں 15000 روپے ادا کیے، جبکہ 5 کروڑ سے زائد پاکستانیوں نے اس میں حصہ لیا۔ حالانکہ پاکستان جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے امدادی وصول کنندگان میں شامل ہے۔
پاکستان میں 1980 کی دہائی سے زکوٰۃ کا ریاستی نظام موجود ہے، لیکن یہ انتہائی غیر مقبول ہے۔ قومی زکوٰۃ فنڈ کے ذریعے جمع کی جانے والی رقم زکوٰۃ کے کل حجم کا صرف پچاسواں حصہ ہے۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 2 فیصد سے بھی کم افراد ریاستی فنڈ کے ذریعے زکوٰۃ ادا کر رہے ہیں، یہ نظام عوامی شرکت کے بغیر محض علامتی حیثیت رکھتا ہے۔
سروے کے مطابق پاکستان میں زکوٰۃ کی زیادہ تر ادائیگیاں خواتین کو دی جاتی ہیں، چاہے زکوٰۃ دینے والا مرد ہو یا عورت۔ نصف سے زیادہ جواب دہندگان نے صرف خواتین کو زکوٰۃ دینے کی اطلاع دی۔ اس کی وجوہات معاشرتی روایات، خاندانی ضروریات اور مذہبی تشریحات شامل ہیں۔ اگرچہ قرآن میں زکوٰۃ کے مستحقین کی جنس واضح نہیں، لیکن فقہی روایات خواتین کی معاشی حفاظت پر زور دیتی ہیں۔
زکوٰۃ کے پورے سماجی اور معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے ریاستی نظام کو شفاف بنایا جائے، عوامی شعور بڑھایا جائے، اور زکوٰۃ کو قرآن میں بیان کردہ 8 مصارف (غربا، مساکین، قرض دار وغیرہ) کے مطابق استعمال کیا جائے۔ ساتھ ہی خواتین کی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے تربیتی پروگراموں کو فروغ دیا جائے۔
زکوٰۃ پاکستان میں نہ صرف مذہبی فریضہ ہے بلکہ یہ غربت اور عدم مساوات کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار بھی ہے ۔ ریاستی نظام کی ناکامی کے باوجود عوامی سطح پر زکوٰۃ کی تقسیم معاشرتی ضروریات پوری کر رہی ہے۔ اسے مزید منظم اور جامع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ پائیدار سماجی تبدیلی کا ذریعہ بن سکے ۔