پشاور ہائی کورٹ میں حیات آباد سے لاپتہ 4 بھائیوں کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل انعام یوسفزئی نے بتایا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نادر شاہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کریں اور پھر رپورٹ پیش کریں۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی رپورٹ تو دیکھی ہے ، اس میں درخواست گزاروں کی فیملی سے پوچھا گیا ہے۔ چاہیے تھا کہ پولیس اور ایجنسیز والوں سے پوچھ لیا جاتا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ان کی فیملی کا ایشو ہے اور ان کے بھائی پر شک تھا۔
عدالت نے کہا کہ یہ بہت نامناسب بات ہے، ایجنسیز اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بجائے بھائی پر ذمے داری ڈالتی ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یہ ہمیں بتائیں، کس پر شک ہے، اس کے خلاف ایف آئی آر درج کراتے ہیں۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ چاہیے تھا کہ سی سی پی اور متعلقہ ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر درج کراتے۔ آج تک تو نامعلوم کا کسی کو معلوم نہیں ہوا کہ کون ہے۔ اگر ایجنسیز اس میں ملوث نہ ہوتیں تو پھر نادرا ان کو نوٹس جاری نہیں کرتا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میں وہیں پر موجود تھا، پولیس نے ان کو اٹھایا ہے، سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ پولیس وہاں پر موجود ہے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ روزانہ ایسے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں کہ فلاں بندے کو اٹھایا گیا ہے۔ اگر پولیس افسران پورا سچ بول لیں تو مسئلہ حل ہو جائےگا۔ پولیس کو سب پتا ہوتا ہے۔ اگر پولیس اپنی ڈیوٹی قانون کے مطابق ادا کرے تو پھر یہ مسائل پیدا نہ ہوتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پولیس کو جو کہا جاتا ہے یہ وہی کرتے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ 6 ماہ گزر گئے ہیں، ابھی تک کچھ پتا نہیں ہے کہ کہاں پر ہیں؟۔ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ان لوگوں کا آخری آسرا عدالت ہوتی ہے، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ہمدردی کرتے ہیں باقی کچھ نہیں کرتے تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم ہمدردی ہی کرسکتے ہیں باقی کیا کرسکتے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے وفاقی سیکرٹری داخلہ اور چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔