سانحہ سوات نے ایک مرتبہ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں اور ایمرجنسی میں ہمارے اداروں کی اہلیت یا ریسپانس کو کو آشکارہ کردیا ۔
موسمیاتی شدت پسندی کی وجہ سے انسانی المیوں کو محض سیاست کی بھینٹ چڑھانا بھی شاید ٹھیک نہیں ،ساتھ ہی ہم ایک ایسے بدقسمت ملک میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ہرقسم حادثے کے بعد ایمرجنسی ریسپانس سے ریلیف یا ریسکیو سے سو فیصد میں سے پچاس فیصد نتائج کی امید رکھنا بھی غالباً خوش گمانی کے زمرے میں آتا ہے ۔
تو ایسی صورتحال میں سب سے پہلے ترجیح یا مجبوری حفاظتی اقدامات شاید واحد بہترین حکمت عملی ۔
ماحولیاتی تبدیلی سے دنیا میں پاکستان پانچویں نمبر پر سب سے متاثرہ ملک شمار ہوتا ہے ،اگر ہم حکومت پر تکیا کر بیٹھیں تو ذرا تصور کریں کہ گزشتہ بیس سال سے بجلی بحران چل رہا ہے،عوام کا غم وغصہ شدید ترین گرمی میں صرف احتجاج تک محدود ہوتا ہے ۔ سیاست اور میڈیا بھی عوام کیساتھ چند مہینے تک متحرک ہوتے ہیں پھر حالات نارمل مگر مسئلہ مستقل بنیادوں پر موجود ۔
موجودہ بارشوں سے ایمرجنسی صورتحال کیلئے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے نے 23 جون کو سخت اور واضح الرٹ جاری کیا تھا ۔جب ہمیں اپنی حکومت ،اداروں یا انتظامیہ کی اہلیت اور وسائل معلوم ہیں تو خود سے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی علاوہ شاید کوئی بہترین حکمت عملی کارگر نہیں ۔
مُحسن! غریب لوگ بھی تِنکوں کے ڈھیر ہیں
مَلبے میں دَب گئے، کبھی پانی میں بہہ گئے