آرمی ایکٹ کے تحت پہلے سروسز چیف کی مدت ملازمت تین سال مقرر تھی، جسے قومی اسمبلی میں ترمیمی بل کے ذریعے بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک نہایت اہم اور خوش آئند فیصلہ ہے کیونکہ پالیسیوں کے تسلسل اور استحکام کے لئے یہ قدم ضروری تھا۔
سروسز اور قومی پالیسی کے سطح پر تین سال کا مختصر عرصہ کسی بڑی پالیسی فیصلے یا انیشیٹیو کو مکمل کرنے کے لیے کافی نہیں تھا، کیونکہ بڑے فیصلوں کے نتائج حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ ساتھ ہی جب ایک پالیسی پر عملدرآمد جاری ہو اور مدت ملازمت ختم ہونے پر نئی قیادت آ جائے تو پالیسی پر اثر پڑتا ہے اور دوبارہ کام نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا ہے، جس سے سروس اور ملک دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ اب سروسز چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہو چکی ہے جس سے پالیسیوں کے تسلسل اور استحکام میں بہتری آئے گی۔
اسی طرح سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد کو سترہ سے بڑھا کر چونتیس کر دیا گیا ہے جس سے سپریم کورٹ کی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا اور عوام کو انصاف کی فراہمی آسان بنے گی۔ صدر کے دستخط کے بعد اب یہ تمام بل قانون بن چکے ہیں۔
قانونی ماہرین نے اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ اس ترمیم کا تعلق کسی ایک شخص سے نہیں بلکہ اداروں کی مضبوطی سے ہے۔ ماضی میں جو ترامیم کی گئیں، ان کا مقصد مخصوص شخصیات کو فائدہ پہنچانا تھا، مگر یہ ترمیم اداروں کے استحکام کے لئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ سال کا دور پالیسیوں کو مکمل کرنے اور ان پر عملدرآمد میں معاون ہوگا۔
قانونی ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی نے اس ترمیم کی مخالفت میں جو شور و غل کیا، وہ بے بنیاد ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے 2020 میں ایک قانون پاس کرایا جس کے تحت وزیر اعظم کے ایک دستخط سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع ہو جاتی۔ اس کا مقصد محض ایک شخص کو فائدہ دینا تھا، جبکہ موجودہ قانون آرمی، نیول اور ایئر چیف سمیت تمام سروسز چیف پر لاگو ہوتا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو آج پاکستان میں ہو رہا ہے وہ آئینی و قانونی طریقہ کار سے ہو رہا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ووٹنگ کے بعد وفاقی کابینہ نے بھی منظوری دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ ترمیم فوجی قیادت کو غیر سیاسی بنائے گی اور ملک و قوم دونوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گی۔