پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر:
پاکستان میں موبائل فون اب سہولت نہیں بلکہ ضرورت ہے ۔ دسمبر 2024 تک ملک میں موبائل صارفین کی تعداد 193.4 ملین سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ 142.3 ملین بروڈبینڈ صارفین فعال ہیں ۔ مالی سال 24۔2023 میں ٹیلی کام شعبے نے 955 ارب روپے کا ریکارڈ ریونیو کمایا اور قومی خزانے میں 335 ارب روپے جمع کروائے ۔ لیکن اس وسیع اور منافع بخش مارکیٹ کے اندر ایک ایسا نظام بھی چل رہا ہے جس پر حکومت، متعلقہ ادارے اور عدالتیں سب خاموش ہیں، اور فائدہ صرف موبائل کمپنیوں کو ہو رہا ہے ۔ یہ کمپنیاں صارفین کو مختصر مدت والے مہنگے پیکجز فراہم کرتی ہیں، جو استعمال ہوں یا نہ ہوں، مدت پوری ہوتے ہی خود بخود ختم ہو جاتے ہیں ۔ صارف کو بار بار نیا پیکج خریدنا پڑتا ہے اور یوں ہر ماہ اربوں روپے صارفین کی جیبوں سے نکلتے ہیں مگر سہولت کے نام پر مایوسی ہی ملتی ہے ۔ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے جب سروس کا معیار ناقص ہو یا مکمل طور پر غائب رہے، جیسا کہ ملک کے بیشتر دیہی علاقوں میں عام ہے ۔ کئی مقامات پر ہفتوں تک سگنل دستیاب نہیں ہوتے اور شہری علاقوں میں بھی نیٹ ورک بار بار ڈاؤن ہو جاتا ہے ۔
پاکستان میں بجلی کی صورتحال پہلے ہی ابتر ہے، دیہی اور دور دراز علاقوں میں دن میں بمشکل دو گھنٹے بجلی آتی ہے جبکہ کئی علاقوں میں ہفتوں تک غائب رہتی ہے ۔ ایسے میں موبائل ٹاورز کو چلانے کے لیے ڈیزل پر چلنے والے جنریٹرز استعمال کیے جاتے ہیں ۔ یہیں سے ایک اور خاموش واردات شروع ہوتی ہے، جہاں فیول کے زیادہ خرچ والے علاقوں میں کمپنیوں کا عملہ ڈیزل چوری میں ملوث ہوتا ہے، نتیجتاً نیٹ ورک مسلسل بند رہتا ہے مگر صارف پھر بھی پیکجز خریدنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ کمپنیاں پہلے ہی پیکجز کی قیمت میں فیول چارجز شامل کر چکی ہیں، مگر اپنی مس مینجمنٹ کا بوجھ بھی صارف پر ڈال دیتی ہیں، جبکہ جب سروس نہیں چلتی تو ان کے آپریشنل اخراجات کم ہو جاتے ہیں اور منافع مزید بڑھ جاتا ہے ۔
یہ کھیل اس لیے بھی آسانی سے چلتا ہے کیونکہ صارفین کے پاس کوئی حقیقی متبادل نہیں ۔ ایک کمپنی چھوڑ کر دوسری لینے والے آخر کار وہی مسائل دیکھتے ہیں، اس لیے ایک عام صارف کے پاس ایک سے زائد سم کارڈز ہوتے ہیں اور وہ بار بار پیکجز خریدتا رہتا ہے ۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق صرف نومبر 2024 میں مختلف کمپنیوں کے خلاف 15,375 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 99 فیصد حل کر دی گئیں، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ صارف کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں ۔
اس مسئلے کا حل صرف شکایات درج کرانے سے نہیں نکلے گا ۔ حکومت اور ریگولیٹری اداروں کو چاہیے کہ پیکجز کے قوانین شفاف بنائے جائیں اور صارف کو استعمال نہ کرنے پر رقم کٹنے سے بچایا جائے ۔ موبائل کمپنیوں کو ڈیزل انحصار ختم کرنے کے لیے سولر انرجی سسٹمز میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، جو لانگ رن میں ان کے لیے بھی زیادہ منافع بخش ہوگا، اور فیول چوری روکنے کے لیے سخت نگرانی کا نظام بنایا جائے ۔ عوام کو بھی اپنے حقوق کا شعور ہونا چاہیے تاکہ وہ ناقص سروس پر خاموش رہنے کے بجائے آواز بلند کریں ۔
ٹیلی کام انڈسٹری پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، مگر یہ ریڑھ کی ہڈی اس وقت عوام کے بجائے صرف سرمایہ کاروں کو سہارا دے رہی ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ صارفین اس ڈھانچے کا حصہ بنیں، نہ صرف صارف بن کر بلکہ مطالبہ کرنے والے شہری بن کر ۔ اگر عوام ڈیجیٹل میڈیا پر اس مسئلے کو مسلسل اجاگر کریں تو شاید وہ وقت جلد آجائے جب کمپنیوں کا منافع اور صارف کا فائدہ ایک ہی سمت میں ہو ۔