روس کی جانب سے افغان طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کیا جانا ایک اہم جیو-پولیٹیکل قدم ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے پڑوسی ملک کے لیے جس کی سکیورٹی اور خارجہ پالیسیوں پر اس کا براہِ راست اثر پڑتا ہے۔
سیاست کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور یہ وقت کے ساتھ دشمنوں کو اتحادی بنانے کی گنجائش بھی رکھتی ہے۔ یہی اصول روس اور طالبان کے موجودہ تعلقات میں بھی کارفرما ہیں۔ طالبان وہی گروہ ہیں جو انہی مجاہدین کی نظریاتی توسیع ہیں، جنہوں نے کبھی سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دی تھی—اور اسی جدوجہد میں پاکستان نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
تاہم وقت نے یہ دکھایا ہے کہ انہی گروپوں کی بعد کی نسلیں، آج پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکی ہیں۔ یہ عسکریت پسند گروہ، طالبان حکومت کی پالیسیوں کی روشنی میں، افغانستان کے تاریخی تناظر سے پاکستان کو پرکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ جیسی عالمی طاقت طالبان سے بات چیت کا آغاز افغانستان سے انخلا سے بہت پہلے کر چکی تھی۔ ان کے لیے سفارتی تعلقات اخلاقی بنیادوں پر نہیں بلکہ حکمتِ عملی پر مبنی ہوتے ہیں۔ روس بھی اسی عملی سوچ کے تحت قدم اٹھا رہا ہے، جو حالیہ برسوں میں اس کی پالیسی میں واضح تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
روس کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں ایران-اسرائیل کشیدگی نے عالمی سیاست میں توجہ بٹا رکھی ہے، اور روس جنوبی وسطی ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ کے تحفظ کی کوشش میں مصروف ہے۔
اصل سوال یہ ہے روس طالبان حکومت کو تسلیم کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اس فیصلے کے پیچھے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں، جن میں مغربی اثر کا مقابلہ، علاقائی مفادات کا تحفظ، اقتصادی مواقع کی تلاش، اور توانائی و انفرااسٹرکچر میں تعاون شامل ہیں۔
دوسری جانب چین نے بھی اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ مقصد واضح ہے: دہشتگردی پر قابو پانا اور علاقائی استحکام کو فروغ دینا۔ مگر بدقسمتی سے، اب تک دہشتگردی پر مکمل قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ افغان سرزمین اب بھی پاکستان پر ہونے والے حملوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
یہی گروہ جنہیں کبھی "اچھے طالبان” یا پاکستانی اتحادی کہا جاتا تھا، اب پاکستان کے خلاف صف آرا ہیں۔ اس تضاد کو دیکھتے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ پراکسی طاقتوں پر انحصار ایک خطرناک کھیل ہے، جس کے نتائج اکثر قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔
افغان قیادت کی طرف سے بھی بظاہر پراکسی عناصر کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے، جو مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں، مگر ساتھ ہی وہ براہِ راست مداخلت سے بچنے کی حکمتِ عملی بھی اپنائے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور ایران، دونوں بخوبی سمجھتے ہیں کہ ایسی قوتوں پر انحصار کرنا کیسے اپنے ہی مفادات کے خلاف جا سکتا ہے۔ یہ گروہ ابتدا میں کام آتے ہیں، مگر بعد میں اپنے ایجنڈے کے تحت سرگرم ہو جاتے ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق، پاکستان کا وسطی ایشیائی خطے میں بڑھتا ہوا کردار اور جارحانہ سفارتی انداز طالبان کے لیے پریشانی کا سبب بنے ہیں۔ طالبان اپنے تشخص کو کسی کی پراکسی کے طور پر محدود نہیں کرنا چاہتے، حالانکہ وہ خود بھی مخصوص مفادات کے حصول کے لیے پراکسی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔
روس کا یہ فیصلہ ایک حقیقت پسندانہ سیاسی اقدام ہے، جس میں موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نمایاں ہے۔ مگر سوال اپنی جگہ باقی ہے: کیا روس طالبان کو اس حد تک قابو میں رکھ سکے گا کہ وہ دہشتگردی یا دیگر ممالک کے خلاف پراکسی استعمال نہ کریں؟
یہی وہ چیلنج ہے جو چین اور پاکستان بھی حل نہیں کر سکے، اور جس کا جواب آنے والے وقت میں ہی ملے گا۔ طالبان کی قیادت فی الحال محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے، تاکہ بین الاقوامی توقعات اور اپنے اندرونی اہداف کے درمیان توازن قائم رکھ سکے۔