وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے ساڑھے 17 ہزار ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا ہے، جس میں بظاہر کچھ طبقوں کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے، مگر مجموعی طور پر عام آدمی کے لیے یہ بجٹ ایک نیا معاشی امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی تقریباً نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، حکومت نے 2 ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکسز نافذ کرنے کی تجویز دی ہے، جس سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آ سکتا ہے۔
بجٹ میں اشرافیہ کے لیے دی جانے والی مراعات بھی شدید تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں۔ وزیر اعظم کی سرکاری رہائش اور دیگر اخراجات کا بجٹ 72 کروڑ روپے سے بڑھا کر 86 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں حیران کن طور پر 500 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد دونوں عہدیداران کی ماہانہ تنخواہ 13 لاکھ روپے ہو گئی ہے۔ ان فیصلوں نے عوامی سطح پر ایک منفی تاثر چھوڑا ہے کہ جب غریب پر بوجھ بڑھایا جا رہا ہے، تو حکومتی نمائندے اپنے لیے سہولتیں بڑھا رہے ہیں۔
تنخواہ دار طبقے کے لیے حکومت نے انکم ٹیکس میں کچھ ریلیف ضرور دیا ہے۔ چھ لاکھ سے بارہ لاکھ سالانہ آمدنی والے افراد کے لیے ٹیکس کی شرح پانچ فیصد سے کم کر کے صرف ایک فیصد کر دی گئی ہے، جب کہ بارہ لاکھ روپے آمدنی پر لاگو ٹیکس کو 30 ہزار سے کم کر کے چھ ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح بائیس لاکھ روپے تک سالانہ آمدنی والوں پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کر دی گئی ہے۔ تاہم بچت پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے، اور اب سیونگز اکاؤنٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ہے۔ اگرچہ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ چھوٹے پیمانے کی بچتوں یا قومی بچت اسکیموں پر لاگو نہیں ہوگا، مگر اس سے مڈل کلاس متاثر ضرور ہوگی۔
وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں سات فیصد اضافے کی تجویز دی ہے۔ مسلح افواج کے افسران و جوانوں کے لیے خصوصی الاؤنس بھی تجویز کیا گیا ہے۔ تاہم، فیملی پنشن کے نظام میں بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ شریک حیات کی وفات کے بعد پنشن صرف 10 سال تک محدود ہوگی، اور قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے صرف ایک کا انتخاب دیا جائے گا۔
دفاعی بجٹ میں بھی 20 فیصد اضافہ کرتے ہوئے 2550 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ملکی دفاع اس کی اولین ترجیح ہے، تاہم ناقدین کے مطابق سماجی بہبود اور تعلیم جیسے شعبے نظر انداز ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 716 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس میں 21 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، اور کفالت پروگرام کو ایک کروڑ افراد تک پہنچانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
کاربن لیوی کے نفاذ اور گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کے اضافے سے بھی عوام کو براہ راست مہنگائی کا سامنا ہوگا۔ پیٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر فی لیٹر 2.5 روپے کاربن لیوی عائد کی جائے گی، جو آئندہ سال بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کر دی جائے گی۔ ہائبرڈ کاروں سمیت تمام گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کو 18 فیصد تک بڑھایا گیا ہے، جس سے گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ سوزوکی آلٹو جیسی چھوٹی گاڑی کی قیمت میں اندازاً 1.7 لاکھ روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
نان فائلرز کے خلاف کارروائی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ اب صرف وہی افراد گاڑیاں، گھر یا اسٹاکس خرید سکیں گے جو ٹیکس فائلر ہیں۔ بینک سے کیش نکالنے پر نان فائلرز سے 1 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا، جو پہلے 0.6 فیصد تھا۔
بجٹ میں ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے سستے قرضوں کی نئی اسکیم کا وعدہ کیا گیا ہے، اور پراپرٹی کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بھی کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ دوسری طرف، سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس سے گرین انرجی کی حوصلہ شکنی کا خدشہ ہے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ بجلی سستی کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
تعلیم کے شعبے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو 39.5 ارب روپے دیے جائیں گے، جب کہ 11 نئے دانش اسکول قائم کیے جائیں گے جن میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان اور اسلام آباد شامل ہیں۔ این ایچ اے کو 226 ارب، پاور ڈویژن کو 90 ارب، اور آبی وسائل ڈویژن کو 133 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر بجٹ میں کچھ مثبت پہلو ضرور موجود ہیں، مگر اشرافیہ کے لیے دی گئی مراعات اور عام آدمی پر نئے ٹیکسز نے اس بجٹ کی عوامی قبولیت کو مشکوک بنا دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہوگا کہ یہ بجٹ عام پاکستانی کی زندگی کو سہولت دے گا یا مزید مشکلات میں ڈالے گا۔