اسلام آباد(ارشد اقبال ناصح) یہ نہ تو پاکستان کے سوئٹزرلینڈ کہلانے والے وادی سوات کا کوئی علاقہ ہے اور نہ ہی اپر، لوئر دیر یا چترال سمیت خیبرپختونخوا کا کوئی ایسا سر سبز علاقہ ہے، جس کے سرسبز و شاداب پہاڑی سلسلے اور سبزہ زاروں کی تصویریں دیکھ لوگ پکنک یاسیرو تفریح کے لیے ان علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ خیبر پختونخوا کا ہی ایک علاقہ ہے، لیکن اس علاقے کی پہچان گھنے درختوں کی چھاؤں اور خوبصورت عمارتیں نہیں بلکہ یہاں کے آثارِ قدیمہ ہیں۔ ہم ذکر کر رہے ہیں خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی تحصیل جمال گڑھی کا۔
جمال گڑھی مردان شہر سے تقریباً 15 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک نواحی علاقہ ہے جس کے آثارِ قدیمہ کا ذکر بدھ مت کی قدیم کُتب اور تاریخ میں بھی ملتا ہے۔
تاریخ یا بدھ مت کی کتابوں میں جمال گڑھی کے آثار قدیمہ کے ساتھ ساتھ ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی اور شہباز گڑھی کے کھنڈرات کا ذکر بھی موجودہے ۔مؤرخین اورعلاقے کے بزرگوں کے مطابق اس علاقے کے آثار آج سے 176 سال قبل یعنی 1848 میں چینی تحقیق کاروں نے دریافت کیے تھے۔
چینی تحقیق کاروں نے صرف تخت بھائی اور شہباز گڑھی کے کھنڈرات ہی دریافت کیے تھے اور جمال گڑھی کے کھنڈرات نامعلوم وجوہات کی وجہ سے دریافت نہیں کر پائے تھے۔ وقت گزرتا گیا اور پھر کئی سال بعد جمال گڑھی کے کھنڈرات کو دریافت کیا گیا اور 1907 میں جمال گڑھی کے کھنڈرات کی صفائی ستھرائی کا کام مکمل کیا گیا۔
اس دوران بدھ مت کا ایک بڑا مجسمہ یہاں سے لاہور لے جایا گیا اور وہاں کے عجائب گھر میں رکھا گیا جہاں وہ آج تک محفوظ ہے۔ آج بھی اس کا ذکر کبھی کبھار خیبر پختونخوا اور پنجاب کے سیاستدانوں کی زبانوں پر آ تا ہے۔لیکن خیبرپختونخوا کی حکومتین اپنا یہی اثاثہ واپس کرانے میں تاحال ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دوسری اور پانچویں صدی کے درمیان جمال گڑھی کے انہی کھنڈرات میں کُشان اور کُشان کے بعد کی قومیں آباد تھیں جن کے آثار سے آج بھی بعض اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ان کھنڈرات میں قیام پاکستان سے قبل یہاں مقیم مذکورہ قوموں کے رہن سہن کے طریقے ،طرز زندگی کے آثار، اُس وقت کی قوموں کے عمائدین یا مشیران کے بیٹھنے کی جگہوں کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جمال گڑھی کے یہ کھنڈرات دیکھنے مقامی سیاحوں سمیت آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے غیر ملکی سیاح بھی آتے ہیں، جن میں اکثریت چینی باشندوں کی ہوتی ہے لیکن سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے غیرملکی سیاحوں کا آنا کافی حد تک کم ہو گیا ہے۔ سیاحوں کی کمی سے جمال گڑھی کے معاشی حالات متاثر ہوئے ہیں اور جو افراد غیر ملکی سیاحوں کو کھنڈرات کے بارے میں بتایا کرتے اب وہ بھی دکھائی نہیں دیتے۔
سطح سمندر سے 3600 میٹر بلند اور زمین سے 152 میٹر کی بلندی پر واقع جمال گڑھی کے یہ کھنڈرات کسی زمانے میں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہوا کرتے تھے لیکن محکمہ آثار قدیمہ نے ان قدیم کھنڈرات پر نہ تو بروقت توجہ دی اور نہ ہی اس کے تحفظ کے لیے انتظامات کیا۔
آج اگرچہ 5 سے زیادہ اہلکار اس کی حفاظت کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے تعینات کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ قیمتی قدیم آثار برباد ہو رہے ہیں اور گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود سیاح اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے تو جاتے ہیں لیکن خالی بوتلیں اور کوڑا کرکٹ وہیں پھینک آتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان کھنڈرات کے بالکل درمیان بادشاہ کا تخت ہوا کرتا تھا۔ تخت کے ارد گرد بادشاہ کا دیگر خاص عملہ بیٹھتا تھا اور اپنے بادشاہ کے احکامات کی بجاآوری کے لیے اپنی مخصوص جگہوں میں نیچے بیٹھے اہلکاروں کے ذریعے بادشاہ سلامت کے احکامات پر عمل درآمد کروایا جاتا تھا۔ بادشاہ کا تخت، امراء اور چاکروں وغیرہ کے بیٹھنے کی جگہیں آج اپنی اصل حالت میں تو نہیں ہیں لیکن اسکے اسٹرکچر میں خاص فرق نہیں آیا۔
اوپر کی طرف سے ایک دو تہوں کے پتھر اکھڑے ہوئے ہیں لیکن کئی سال گزر جانے کے بعد آج بھی یہ کھنڈرات یا آثار دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ان آثار میں ہمیں ایک دلکش تعمیراتی کام کا عکس بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ ان تعمیرات میں کسی قسم کا سیمنٹ وغیرہ بھی استعمال نہیں ہوا، یہاں عمدہ تعمیراتی فن کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔اور دیکھنے والوں کو متوجہ کرکے غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
تخت کی جگہ سے کافی نیچے گھوڑوں کے لیے جگہ مختص ہوا کرتی تھی۔ گاؤں کے بعض بزرگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جمال گڑھی، تخت بھائی اور شہباز گڑھی کے کھنڈرات کے درمیان زیر زمین یعنی پہاڑ کے اندر ایک پوشیدہ راستہ ہوا کرتا تھا اور جمال گڑھی میں بیٹھنے والے بادشاہ باقی دونوں جگہوں کے کھنڈرات کے چھوٹے بادشاہوں یا وزیروں پر نظر رکھتے تھے۔
جمال گڑھی آثارقدیمہ کے مشرق میں شکر تنگی، پیتے کلے، مغرب میں کنج، شیرو اور کٹی گڑھی، شمال میں جمال گڑھی، ساولڈھیر اور گدر کا علاقے اور جنوب میں شکرے بابا، کاٹلنگ بازار اور وہاں سے آگے سوات کی طرف جانے والے راستے ہیں۔
گو کہ اب کھنڈرات کے گرد لوہے کی ایک باڑھ تو لگائی ہے جو کسی حد تک آثار کی حفاظت کرتی ہے لیکن صرف اتنا انتظام کافی نہیں۔ کیونکہ آثار قدیمہ کے اہلکار صرف باڑ ھ کی ایک سائیڈ پر درختوں کے نیچے بیٹھے بیٹھے صبح شام کرتے ہیں جبکہ دیگر اطراف سے بھیڑ بکریاں آ کر کھنڈرات کے آس پاس لگائے گئے قیمتی بیل بوٹیوں کو کھا کر خوبصورتی کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ خیبر پختونخوا کی جانب سے چند سال قبل بدھ مت کے مذکورہ آثار دیکھنے والوں کے لیے جمال گڑھی نہر پلو میں سرکاری پرائمری سکول کے قریب سڑک بنائی گئی ہے جو آپ کو سیدھا اوپر کی جانب کھنڈرات کے پاس لے جاتی ہے جس پر آسانی کے ساتھ گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں چل سکتی ہیں اور عیدین کے موقع پر آج بھی یہاں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
عیدین کے موقع پر مقامی اور دور دراز علاقوں کے لوگوں کا جم غفیر دیکھ کریہی گمان ہوتا ہے کہ یہ آثار قدیمہ دیگر سرسبز و شادات سیاحتی مقامات سے کسی صورت کم نہیں۔اگر کوئی کمی ہے تو وہ یہ کہ سوات موٹر وے سے ان آثار تک پہنچنے کیلئے لنک روڈ نہیں دیا گیا جو آج بھی غیر ملکی سیاحوں کا ادھوارا خواب ہے جسے فوری شرمندہ تعبیر ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ صوبائی وزرا تو کئی بار ان آثار کا دورہ بھی کرچکے ہیں ۔ مقامی افراد کے مطابق پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت کی اہم شخصیت زلفی بخاری بھی دیگر صوبائی وزرا کے ہمرا ہ ان آثار کا دورہ کر چکے ہیں اور وہ سوات موٹروے سے یہاں لنک روڈ دینے پر متفق بھی ہو چکے تھے لیکن پھر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا ۔زلفی بخاری کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جب بھی غیر ملکی سیاح پشاور یا اسلام آباد سے یہاں آتے ہیں تو مقامی سڑکوں کے کھڈے ان کا استقبال کرتے ہیں اور یوں وہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ۔ اس لئے زلفی بخاری نے یہاں موٹروے سے لنگ روڈ دینے کی حامی بھری تھی لیکن پھر ایسا کیوں نہ ہوسکا اب کسی کو کچھ بھی نہیں معلوم ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ لنک روڈ نہ ہونے کی وجہ سے غیر سیاحوں کی ان آثار آمد میں بڑی حد تک کمی واقع ہو چکی ہے ۔جس کے منفی اثرات نہ صرف ملکی سیاحت پر بلکہ جمال گڑھی پر بھی پڑنے لگے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کو مقامی افراد کے موقف کو دیکھنا ہوگا کیونکہ صوبائی حکومت دعوی کرتی آرہی ہے کہ وہ سیاحت کے شعبے کو مزید فروغ دینے کیلئے پرعزم ہے ۔لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر واقعی صوبے کی سیاحت کی بہتری کیلئے کام ہورہا ہے تو اس لحاظ سے صرف جنوبی اضلاع پر فوکس کیوں کیا جا رہا ہے ۔کیا جمال گڑھی کا آثارقدیمہ صوبے سے باہر واقع ہے جو صوبائی حکومت کے دعووں کے برعکس آج بھی عدم توجہی کا شکار ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ ملک کے دیگر سیاحتی علاقوں کی طرح جمال گڑھی کے آثار قدیمہ پر بھی بھرپور توجہ دے تاکہ یہاں ایک بار پھر غیر ملکیوں کے آنے کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا ہو سکے۔