وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے جب سے روایتی قبائلی جرگے کے احیاء کے لیے مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ہے، تب سے ایک ابہام کی کیفیت جنم لے چکی ہے ۔ قبائلی اہلِ فکر و نظر شدید تذبذب کا شکار ہیں اور کھلے عام خدشات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ عام طور پر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت قبائلی علاقہ جات کے سات سالہ انضمام کو ختم کرتے ہوئے پرانے نظام کو بحال کرنے کے لیے پرتول رہی ہے ۔ قبائلی عوام سات سال قبل کے منقسم آرا کے دو راہے پر ایک مرتبہ پھر آ کھڑے ہوئے ہیں، جہاں اگر ایک اکثریت انضمام کے حق میں تھی تو وہیں برابر کی تعداد میں پرانے نظام کو قائم و دائم رکھنے کے لیے دلائل دیئے جا رہے تھے ۔ زیرِ نظر تحریر میں کوشش کی جائے گی کہ قبائل کے مسائل اور افکار کو تاریخی حوالوں سے جوڑتے ہوئے مستقبل کی نشاندہی کی جائے ۔
انگریز سامراج نے پشتون غیرت، حریت، جہاد اور آزادی کے من پسند بیج پشتون قبائل کے اذہان میں بوئے تھے، جو اب تناور درخت بن چکے ہیں ۔ انگریز جہاں پورے برصغیر پر قابض ہوا تھا، وہاں اُس کے لئے مٹھی بھر قبائلیوں کو فتح کرنا کوئی جوئے شیر لانا نہیں تھا ۔ انگریز حکمتِ عملی کے طور پر چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے قبائلیوں کے ذہنوں میں یہ بات نقش کرنا چاہتا تھا کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہیں ۔ دوسری جانب انگریز بین الاقوامی طاقتوں کے دلوں میں قبائل کا خوف بٹھانا چاہتا تھا۔ ان دونوں امور میں انگریز کو کامیابی ہوئی ۔ آزادی اور خودمختاری کے نام پر انہیں اپنے زر خرید ملکان کے ذریعے غلام بنایا ۔ ملکان کی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے ان کے پیچھے پیروں، فقیروں اور ملاؤں کو کھڑا کیا۔ وسائل کو لوٹنے اور قبائلی عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے ایف سی آر کے قانون کو نافذ کیا ۔ انگریز نے خود سے ایسے حالات پیدا کیے کہ قبائلی عوام کو "سڑک دشمنی” پر اُکساتا رہا۔ سڑک کے ذریعے ترقی اور شعور کی منازل طے ہونا تھیں جو قبائلی اقوام نے خود روک کر انگریز کو ریاستی فرائض سے بری الذمہ کر دیا ۔ انگریز سرکار کے اپنے ریکارڈ کے مطابق ان کے لیے صرف فقیرِ ایپی دردِ سر بنا ہوا تھا جبکہ باقی قبائلی آوازوں کو وہ خرید چکے تھے ۔ قبائلی علاقہ جات کو روس کے خلاف بفر زون بنائے رکھنے کے لیے انگریز کی یہ حکمتِ عملی بالکل سائنسی، سیاسی اور منطقی تھی ۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی روس ہی کے خلاف وہی پالیسی ریاستِ پاکستان کے ذریعے جاری رکھی گئی ۔
نئے دور کے تقاضوں کے مطابق قبائلی علاقہ جات کو پاکستان کے مرکزی دھارے میں لانا ناگزیر تھا اور یوں قبائل کی پرانی امتیازی حیثیت ختم کرتے ہوئے پختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں اسے مختلف اضلاع کی صورت میں ضم کیا گیا ۔ انضمام کے بعد ریاستی نالائقی، لاتعلقی، ادارہ جاتی کوتاہیوں اور مذموم مقاصد کی وجہ سے قبائلی علاقہ جات کسی طرح بھی پاکستان کے مرکزی دھارے کا حصہ نہیں بن سکے ۔ ان قبائلی علاقہ جات میں ریاستی انتظامیہ، پولیس، عدلیہ اور دیگر ادارے اس طرح سے فعال نہیں ہو سکے کہ قبائلی علاقہ جات پاکستان کے تنِ پوشی میں بجائے ایک سترپوش کے پیوند لگے مانگے تانگے کا قمیض نہ لگتے ۔
دوسری جانب سیاسی جماعتیں بھی گزشتہ سات سال میں مکمل ناکام ہوئیں اور قبائلی علاقہ جات میں دیگر پاکستان کی طرح سیاسی نظام کو وضع نہیں کر سکیں ۔ افغانستان اور قبائلی علاقہ جات کے خطے میں پسماندگی کی وجہ بھی بنیادی طور پر سیاست کا فقدان اور سیاسی عمل کا عنقا ہونا تھا۔ افغانستان، قبائلی علاقہ جات، خیبر پختونخوا اور جنوبی پختونخوا میں واحد فرق خان عبدالغفار خان باچا خان اور صمد خان اچکزئی شہید جیسے سیاسی اکابرین کا نہ ہونا تھا ۔
بدلتے حالات اور خطے کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کی عالمی اور علاقائی اہمیت اور بالادستی اب ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ پاکستان اصولی طور پر امریکہ کے ساتھ قبائلی علاقہ جات کے معدنیات کے حوالے سے طویل المیعاد معاہدے پر متفق ہو چکا ہے ۔ ان معاہدوں کی صورت میں ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور علم ان علاقوں میں منتقل ہوں گے جو پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے ۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے بے تحاشا نئے مواقع میسر ہوں گے جبکہ لاتعداد نئے مقامی کاروبار پیدا ہوں گے جو یقیناً خوشحالی کا باعث بنیں گے ۔
امریکیوں کو یقیناََ ان علاقوں میں امن، سکون اور قانون کی عملداری کی ضرورت ہے ۔ ان امور کے لیے حکومتی رٹ ناگزیر ہوتی ہے جو اچھی طرزِ حکمرانی کے ذریعے امن و امان اور نظام کو رواں دواں رکھے ۔ نظام کی کوتاہی اور سات سالہ نظراندازی اب ریاستِ پاکستان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسی ہوئی ہے ۔ ایک طرف اگر دہشت گردی کا قلع قمع نہیں ہوا ہے تو دوسری جانب افغانستان سے مستقل اور مسلسل دراندازی بھی جاری ہے ۔
مقامی دہشت گردی اور سرحد پار کی دراندازیوں کو اگر افواجِ پاکستان اور سیکیورٹی ادارے روک بھی دیتے ہیں تو سول انتظامیہ اور صوبائی حکومت اس قابل نہیں کہ امن و امان کو بھی قائم رکھے اور اچھی طرزِ حکمرانی کے ذریعے قبائل کی ترقی کو بھی یقینی بنائے ۔
امریکیوں کو ان قبائلی علاقہ جات اور پختونخوا کے ملحقہ شہروں اور علاقوں میں دبئی ماڈل کا نظام چاہیے: مکمل امن، کھلی شاہراہیں، مسلسل پاور اور انرجی کی سپلائی، پارکس، کلبز، ہسپتال اور دیگر تمام جدید سہولتیں اور آسائشیں ۔ وقت کم اور مقابلہ سخت کے مصداق، یہ سب کچھ قلیل وقت میں ممکن نہیں ہے ۔ نہ تو ریاست انضمام کے فیصلے کو واپس لینا چاہتی ہے اور نہ ہی ریاستی نظام کے مقابل کوئی دوسرا نظام ساتھ ساتھ چلانا چاہتی ہے ۔
امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ جہاں وہ کام کر رہا ہے، وہاں جمہوریت اور انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو۔ امریکہ کو ان اقدار کی قلبی ضرورت نہیں ہے، لیکن بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق اُسے اس کی پاسداری کرنی ہے، کیونکہ امریکہ پہلی مرتبہ اس خطے میں جنگ کے لیے نہیں بلکہ کاروبار کے لیے اُتر رہا ہے ۔ جنگی حالات میں بنیادی انسانی حقوق تو معطل کیے جا سکتے ہیں، لیکن نارمل کاروباری حالات میں قطعی نہیں ۔
دوسری جانب، ان معدنیات پر جب عملی کام شروع ہوگا تو قبائل کی ملکیتی، وراثتی اور قومی دعوے، تضادات اور مالکانہ حقوق کے جھگڑے اور مسائل سامنے آئیں گے ۔ موجودہ ناقص عدالتی نظام میں اگر اقوام داد رسی کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں، تو اس کے لیے عمرِ خضر اور صبرِ ایوب چاہیے، جو نہ امریکیوں میں ہے اور نہ ہی ریاستِ پاکستان میں ۔
ایک اور المیہ ضلعی انتظامیہ کی نااہلی اور محکمانہ کمزوریاں ہیں، جس کا تو بہرحال کوئی متبادل حل نکالا جائے گا ۔ وہ حل یقیناً امریکیوں، ضلعی انتظامیہ اور فوجی سنگت ہوگا، جو ایک سٹیئرنگ کمیٹی کی صورت میں طرزِ حکمرانی کو امریکی اطمینان تک لائے گا ۔ واضح رہے: معیار نہیں، اطمینان ۔
قبائلی، ملکیتی، اشتراکی اور قومی جھگڑوں اور تصفیے کے لیے ضروری ہے کہ ایک نمائندہ جرگہ قائم ہو جائے ۔ یہ جرگہ فیصلوں اور انصاف کی بجائے ایک طرح سے افہام و تفہیم، کاروباری معاہدوں اور امن و سکون کو قائم رکھنے کے لیے کام کرے گا ۔ یہ جرگہ ایک طرح سے لین دین کا ریاستی ذریعہ ہوگا تاکہ معاملات سکون کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں ۔
اس جرگے کی نمائندہ حیثیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعض معاملات میں قبائلی عوام دخل در معقولات سے دور رہیں اور سیاسی جماعتوں اور مخالف آوازوں کو بھی قبائلی علاقوں سے دور رکھا جائے ۔ مجوزہ جرگہ دراصل لین دین اور افہام و تفہیم کا ایک سرکاری بازو ہوگا اور ایسا کوئی خطرہ وجود نہیں رکھتا کہ گویا قبائلی نظام واپسی کا سفر شروع کرکے وہیں رکے گا جہاں سے سات سال قبل پہلا قدم اٹھایا تھا ۔