پاکستان کے شمالی علاقے باجوڑ میں دہشت گردی کی سرگرمیاں ایک مرتبہ پھر عروج پر ہیں اور سیکیورٹی فورسز نے ان کی سرکوبی کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکومت کے ذریعے قبائل کے ساتھ کیے گئے مذاکرات کی رپورٹس سامنے آئی ہیں، جن میں خوارج کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق خوارج اور ان کے سہولت کاروں سے حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کی بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
باجوڑ میں جو حالات سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق خوارج جن میں زیادہ تر افغان باشندے شامل ہیں، مقامی آبادی میں چھپ کر دہشت گردانہ اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ یہ خوارج اپنے مقاصد کے لیے مقامی قبائل کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی طرف سے جھوٹ پھیلانے کی بھی اطلاعات ہیں تاکہ عوامی سطح پر ابہام پیدا کیا جا سکے۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ خوارج اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ مذاکرات یا بات چیت کا کوئی امکان نہیں، کیونکہ یہ لوگ ریاست اور معاشرتی امن کے دشمن ہیں۔ اس کے برعکس سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں اسی انداز میں جاری رہیں گی جس طرح سے ان کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اگر خوارج اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کی جائے تو یہ خطرات اور بڑھ سکتے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت اور سیکیورٹی حکام نے باجوڑ کے قبائل کے سامنے تین اہم نکات رکھے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ افغانیوں کی اکثریت پر مشتمل خارجیوں کو باجوڑ سے نکالنا ضروری ہے تاکہ مقامی آبادی پر اثرات کم ہوں۔ دوسرا، اگر قبائل یہ کام خود نہیں کر سکتے تو انہیں کچھ دنوں کے لیے علاقے کو خالی کرنے کی پیشکش کی گئی، تاکہ سیکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا موقع مل سکے۔ تیسرا حکام نے واضح کیا کہ اگر یہ دونوں اقدامات نہ کیے جا سکتے ہوں تو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں غیر ارادی نقصان سے بچنے کی کوشش کی جائے گی، لیکن کارروائی ہر صورت جاری رہے گی۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اگرچہ دہشت گردوں نے مشروط طور پر شہری علاقوں کو خالی کرنے کی پیشکش کی ہے، لیکن وہ ضلع باجوڑ کو مکمل طور پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ صورتحال حکومتی سطح پر ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکی ہے، جس کا حل کوئی آسان بات نہیں ہے۔
سیکیورٹی حکام نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ان عناصر سے بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ صرف ریاست کی عملداری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ خوارج کے ساتھ جنگ میں کامیابی کے لیے مکمل ریاستی قوت کا استعمال ضروری ہے، اور اس میں کسی قسم کی نرمی یا سمجھوتے کا سوال نہیں۔
اس صورتحال میں حکومتی پوزیشن واضح ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت یا مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری رہیں گی، اور مقامی قبائل کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کراتے ہوئے سیکیورٹی اقدامات کو کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔ اس تمام عمل میں حکومت کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ قومی سلامتی کی اہمیت کے پیش نظر جاری رکھی جائے گی اور اس میں کسی بھی قسم کی رعایت یا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔