نہ تو میں فلسطین کے حق میں بولتا ہوں ، نہ ہی امریکہ کے خلاف زہر افشانی کرتا ہوں اور نہ ہی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتا ہوں۔ اور یہ سب کچھ میں علمائے حق کو خوش رکھنے اور ریاست کو اپنی وفا داری اور فرمانبرداری ثابت کرنے کے لیئے کرتا ہوں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھ سے گستاخی اور غلطی ہوئی تھی جب پینتالیس سال قبل میں نے ملا اور ریاست کی حکم عدولی کی تھی۔ میں اعترافِ جرم بھی کرتا ہوں اور فلسطین کے حق میں اور اسرائیل اور امریکہ کے خلاف جو غلطی مجھ سے سرزد ہوئی تھی اور جس کے نتیجے میں جو سزا پائی تھی، آج وہ بھی بتائے دیتا ہوں۔
فلسطین کے حق میں اور امریکہ اور اسرائیل کے خلاف پاکستان میں جو ماو تحریک بنی تھی، میں اس کا حصہ رہا۔ فلسطین کے حق میں اور اسرائیل و امریکہ کے خلاف میں کمیونسٹ تحریک کا بھی حصہ رہا۔ افغان انقلاب میں تو بہت فعال کردار ادا کیا۔ جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد کی رہبری میں ہمارے مقابل کھڑی تھی۔ مولانا فضل الرحمٰن سمیت تمام علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں نے اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالا تھا۔ قاضی حسین احمد اور تمام مذہبی اکابرین اور جماعتیں جیت گئیں۔ ہم مکمل ہار گئے۔ قاضی حسین احمد کو ایک عرصے بعد احساس ہوا کہ دراصل وہ ہارے تھے۔ جیتے ہم بھی نہیں تھے۔ ہار دونوں کی ہوئی تھی—مذہبی جماعتوں کی بھی اور ترقی پسندوں کی بھی۔
بہرحال، قاضی حسین احمد نر آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کی کہ روس کو افغانستان میں شکست دینے اور نتیجتاً سوویت یونین کا خاتمہ کرنا ایک غلطی تھی۔ دنیا یک قطبی ہو گئی اور اب امریکہ جو دراصل یہودیوں کا حکومتی چہرہ ہے، مسلمانوں کو برباد کرے گا۔ دیگر علما اور جماعتوں کو تادمِ تحریر نہ ہی یہ احساس ہوا ہے اور نہ ہی شرمندگی۔ چین اور روس کے خلاف علمائے کرام کہتے تھے کہ ان کے مقابلے میں امریکہ کا ساتھ دینا عین شرعی ہے کہ عیسائی اہلِ کتاب ہیں اور یہ دونوں ممالک دہریہ ہیں۔ اہلِ کتاب کے ساتھ نکاح کی اجازت ہے، جبکہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ مکمل کافر ہیں۔
ریاست کا بیانیہ اس مذہبی بیانیے کے ساتھ ایک اور اضافے کے ساتھ مشتہر ہوتا تھا: روس توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے، گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے، لہٰذا جہاد فرض ہے کہ افغانستان میں اسے روکا جائے۔
حیران کن تضاد یہ ہے کہ جس ریاست اور ملا نے کراچی کے سمندر تک روس کو رسائی نہ دینے کا عہد کیا تھا، آج وہ طاقتیں سی پیک کے ذریعے اسی روس اور چین کو گوادر اور پورے پاکستانی سمندر تک راستہ فراہم کر رہے ہیں۔
اس دوران علمائے حق یہ بھی فرماتے تھے کہ روس اور چین کے لادینی لوگ مقدس رشتوں کا احترام نہیں کرتے اور بہنوں، بیٹیوں سے زنا کرتے ہیں۔
ہم نے ان تمام نکات کی مخالفت کی۔ قید و بند، غربت و افلاس، بے روزگاری، الزامات اور کفریہ القابات کے شکار رہے۔ ہماری خوب کردار کشی ہوئی۔ اتنے رسوا ہوئے کہ آج تک اس رسوائی اور اس کے اثرات کو بھوک و افلاس کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
ملا آج اپنی بات سے مکر گیا ہے، منحرف ہو چکا ہے۔ جو ہم پینتالیس سال قبل کہتے تھے اور دار پر چڑھتے رہتے تھے، وہی کچھ آج ملا بھی کہہ رہا ہے۔ مگر ہمارے باپ کا بھی توبہ کہ ہم وہی پرانی روش پھر اختیار کریں۔ ہم ملا اور ریاست کے جبر کے نتیجے میں مشرف با ملا اور مشرف با ریاست ہو چکے ہیں۔ ہم کبھی بھی امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بات نہیں کریں گے۔ ہم کبھی بھی غزہ پر نہیں بولیں گے۔ ریاست اور ملا بدل چکے ہوں گے، ہم نہیں۔ ہم پٹھان ہیں اور پٹھان کی ایک بات ہوتی ہے۔
ملا اور ریاست کے ساتھ قوم کل بھی ہمنوا تھی اور آج بھی ڈھولک پر سنگت دے رہی ہے۔ ہم عوام کے ساتھ بھی نہیں جائیں گے کہ ہم اپنے ملا اور ریاست کو ناراض نہیں کر سکتے۔ ہم یہ گھٹیا عمل افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔
ملا نے سائنس، علم، ٹیکنالوجی، ادب، روشن خیالی، فنونِ لطیفہ اور ترقی کو کفریہ عمل قرار دیا۔ ملا نے کہا: یہ زندگی فریب ہے، ہلاکت ہے۔ ملا نے کہا: اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی۔ ملا نے کہا: جہاد فرض ہے اور یہ فرض ہمارے ذمے ہے۔ اور یہ فرض رازق نے عائد کیا ہے۔ سب کچھ چھوڑ کر جہاد میں جھت جاؤ۔ اور ہم جھت گئے۔
ملا نے یہ سب کچھ ریاست کے ایما پر کیا تھا۔ ملا اور ریاست نے مل کر وقت، ترقی اور انقلاب کا پہیہ پیچھے گھمایا۔ انہوں نے میدان ہموار کر کے مساجد و مدارس کھڑے کیے۔ مسلکی کارخانے بنائے۔ جہادی ورکشاپس تعمیر کیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے، پورا پاکستان ایک صارف معاشرے میں بدل گیا۔ صنعت، حرفت، روزگار، کاروبار، شعوری سفر اور مادی ترقی ماند پڑ گئی۔ ملائیت سر چڑھ کر بولنے لگی۔
ہم نے خوب جگ ہنسائی اور ذلتیں سمیٹیں۔ اخلاقیات کا جنازہ پڑھا۔ انسانیت کو دیس بدر کر دیا۔ ہولناک غربت کو گلے لگایا۔ جمہوریت، مشرقی اقدار، اعلیٰ روایات، قومی اتفاق، بھائی چارہ، حب المسلمین، تہذیب، تمدن، شرافت اور اقتصادیات کو لات مار کر دریا برد کر دیا۔
ہم نے منشیات، دہشت گردی، اقربا پروری، غداری، ظلم، ناانصافی، وطن فروشی اور اخلاقی زوال کو اپنے زرّیں اصول بنا لیے اور مقابلے میں جھت گئے کہ کون کتنا بڑا درندہ ہوگا۔ ہم نے اداروں کو تباہ کیا، سیاسی بھیڑیوں کے گروہ پال لیے اور اپنے ملک اور اپنے لوگوں کو گدھ کی طرح نوچنا شروع کیا۔
تم تو مرغ باد نما ہو مولانا صاحب، مگر میں صاحبِ قول و فعل ہوں۔ تم نے کہا تھا اور ہم نے مانا تھا۔ عیسائی امریکہ اور یہودی اسرائیل دونوں صاحبِ کتاب ہیں۔ دونوں کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ دونوں کی مصنوعات حلال ہیں۔ اب تم جانو اور تمہاری سازشیں۔
ہاں، میں ساتھ دوں گا اور ضرور دوں گا۔ تم قرونِ وسطیٰ کے ملا بن جاؤ، میں پتھر کے زمانے کا مہتدی بننے کو تیار ہوں۔ ہمت کرو۔ کوئی بات نہیں کہ محاورے میں "ہمتِ مرداں، مددِ خدا” کہا گیا ہے۔ آگے بڑھو اور نیا محاورہ تخلیق کرو: ہمتِ ملا، مددِ خدا۔ مگر یہ تم سے ہوگا نہیں، اور جو تم سے ہوسکتا ہے وہ خوب کر رہے ہو—انتشار، فساد، اقتصادی تباہی، اور پاکستان کو ایک ایسا ملک ثابت کرنا جو خونی ہے اور دنیا کا دشمن ہے۔