اسلام آباد سے عروج خان کا بلاگ: ۔
پاکستانی معاشرہ بظاہر عورت کو عزت، وقار، اور غیرت کی علامت قرار دیتا ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے عورتوں کو سب سے زیادہ تذلیل، تشدد اور ظلم کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی جیسے رشتوں میں عظمت دی جاتی ہے، وہیں دوسری طرف انہی رشتوں کے پردے میں اسے ظلم، زیادتی، بے بسی، اور تنہائی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
خواتین پر تشدد صرف ایک فرد کا ذاتی مسئلہ نہیں، یہ ایک ایسا اجتماعی المیہ ہے جو ہماری سوسائٹی کی جڑوں میں سرایت کر چکا ہے۔ اس کا شکار نہ صرف کم تعلیم یافتہ یا دیہی علاقوں کی خواتین ہیں بلکہ شہری، تعلیم یافتہ، خودمختار خواتین بھی اکثر اسی کرب سے گزرتی ہیں مگر خاموشی سے۔ خواتین پر تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جو نسل، زبان، تعلیم، شہر یا طبقے کی تفریق سے ماورا ہے۔ اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں نہ صرف جسمانی مارپیٹ شامل ہے بلکہ جذباتی، ذہنی، معاشی اور جنسی استحصال بھی شامل ہیں۔
خواتین پر تشدد،، مختلف شکلیں، ایک ہی تکلیف:
تشدد صرف مارپیٹ کا نام نہیں۔ عورت کو مارے بغیر بھی ایسا زخمی کیا جا سکتا ہے کہ اس کا وجود اندر سے چُور چُور ہو جائے۔
تشدد کی مختلف اقسام ہیں،،
جسمانی تشدد: مارپیٹ، تھپڑ، دھکا دینا، بال پکڑ کر گھسیٹنا، قید رکھنا، یا جلانا۔
جذباتی و ذہنی تشدد۔۔۔ بار بار طعنے دینا، خاموش رہ کر سزا دینا، ڈرانا دھمکانا، محبت سے محروم رکھنا۔
معاشی تشدد۔۔۔ کمائی پر قبضہ، جیب خرچ نہ دینا، مالی فیصلوں میں دخل نہ دینا۔
سماجی تشدد۔۔۔ باہر نکلنے سے روکنا، کسی سے بات نہ کرنے دینا، ملازمت یا تعلیم کی اجازت نہ دینا۔
یہ سب وہ طریقے ہیں جنہیں معاشرہ اکثر "معمول کی بات” سمجھ کر نظرانداز کر دیتا ہے۔ جب عورت آواز اٹھائے، تو اسے کہا جاتا ہے کہ ہر گھر میں ایسا ہی ہوتا ہے، برداشت کرو۔یہی "برداشت” وقت گزرنے کے ساتھ انسان کی خودی، شناخت اور اعتماد کو مٹا دیتی ہے۔
بس صبر کر لو ۔۔۔ عورت کا روایتی ہتھیار ، معاشرتی زنجیر یا مجبوری؟
"صبر” کا لفظ سننے میں خوبصورت لگتا ہے، لیکن جب اس کا مطلب ہو ظلم سہنا، تو یہ خوبصورتی زہر بن جاتی ہے۔ہماری تربیت ہی کچھ یوں کی گئی ہے کہ اگر عورت روئے، تو اسے کمزور کہا جاتا ہے، اور اگر وہ بولے، تو "باغی” کا خطاب دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو سکھایا جاتا ہے کہ خاموش رہو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اکثر لوگ عورت کے صبر کو اس کی خوبی سمجھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: کیا یہ صبر واقعی ایک خوبی ہے یا مجبوری؟ بہت سی خواتین کو بتایا جاتا ہے کہ برداشت کرنا ہی اصل عظمت ہے، شوہر کے ظلم کو سہنا ہی بیوی کا فرض ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خاموشی ظلم کو طاقت دیتی ہے۔ جو صبر عورت کی عظمت کا سبب سمجھا جاتا ہے، وہی صبر اکثر اسے قبر کی دہلیز تک لے جاتا ہے۔
حالیہ واقعہ: زینب کی خاموش چیخ
زینب ، پشاور کے ایک متوسط طبقے کے گھر میں پلی بڑھی، ایک پرعزم، خودمختار، اور تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔ اس نے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک نجی اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔ وہ نہ صرف اپنے لیے اپنے گھر والوں کے لئے بلکی معاشرے کی اور لڑکیوں کی لئے بھی ایک مثال بننا چاہتی تھی۔لیکن شادی کے بعد سب خواب بکھر گئے۔کیونکہ نوکری کرنے پر شوہر نے کہا:
نوکری؟ ہمارے خاندان کی عورتیں گھر سے باہر نہیں جاتیں۔۔۔پہلے یہ مخالفت صرف الفاظ میں تھی، پھر رویوں میں بدل گئی، اور آخرکار تشدد میں۔ زینب کو اکثر رات گئے تک گھر کے کام کروائے جاتے، اس کا فون چھین لیا گیا، والدین سے رابطہ ختم کر دیا گیا۔ پھر ایک دن، صرف نوکری کرنے کی بات پر، اسے سات دن تک ایک کمرے میں بند رکھا گیا۔نہ کھانے کو ملا، نہ پینے کو۔ بات کرنے پر گالیاں، اور چپ رہنے پر گرم استری۔ جسم پر جلنے کے نشان آج بھی باقی ہیں ۔ مگر روح پر جو داغ لگے، وہ الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔پڑوسیوں نے چیخیں سنیں، مگر کوئی دروازہ کھولنے نہ آیا۔جب زینب ہسپتال پہنچی، تو اس کی آنکھیں بند تھیں، سانس ہلکی، اور ہونٹوں پر صرف ایک سوال،،،کیا جینے کی خواہش کرنا جرم ہے؟”
میڈیا اور سوشل میڈیا ۔۔ مظلوم کی آواز یا ظالم پر پردے
یہ واقعہ چند دن میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھایا رہا، مگر پھر دیگر خبروں کی گہماگہمی میں کھو گیا۔ جیسے زینب کی کہانی کبھی تھی ہی نہیں۔ خواتین پر تشدد جیسے واقعات میں میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کی طاقت فیصلہ کن ہو سکتی ہے یہ آواز بھی بن سکتے ہیں اور خاموشی کے محافظ بھی۔ ميڈیا اور سوشل میڈیا، دونوں اگر ذمہ داری سے کام لیں تو ظلم کے خلاف نہ صرف آواز بن سکتے ہیں بلکہ نظام میں بہتری کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔اصل ضرورت سنسنی نہیں، سنجیدگی کی ہے۔خبر کے پیچھے انسان دیکھنے کی ہے، عبرت نہیں۔
معاشرتی رویہ۔۔ خاموشی جرم کو جنم دیتی ہے
ظالم صرف وہ نہیں جو مارے، بلکہ وہ سب بھی شریکِ جرم ہیں جو ظلم دیکھ کر چپ رہیں۔جب ہم عورت کو یہ کہتے ہیں کہ شوہر ہے، برداشت کرو یا طلاق سے بدنامی ہوگی، تو ہم ظالم کو طاقت دے رہے ہوتے ہیں۔اگر کوئی ماں اپنی بیٹی کو ظلم سہنے کا مشورہ دیتی ہے، اگر بہن اسے خاموشی کی تلقین کرتی ہے، یا اگر بھائی اسے سمجھاتا ہے کہ "تمہاری عزت ہمارے خاندان کی عزت ہے” تو یہ سب دراصل اس نظام کا حصہ ہیں جو عورت کو کمزور بناتا ہے۔
قانون موجود مگر انصاف ندارد
پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے کئی قوانین موجود ہیں۔ لیکن مسئلہ قانون کی عدم موجودگی نہیں، بلکہ اس پر عملدرآمد کی کمی ہے۔پولیس اکثر متاثرہ عورت کو سنجیدہ نہیں لیتی۔عدالتوں میں سالوں تک کیس چلتے ہیں، بغیر کسی فیصلے کے۔اکثر مظلوم عورت پر ہی سوال اٹھائے جاتے ہیں ،،،”تم نے کچھ کیا ہوگا، شوہر ناراض کیوں ہوا۔ایسے نظام میں زینب جیسے کیس صرف فائلوں میں رہ جاتے ہیں، اور مجرم "صلح” یا سفارش کے ذریعے آزاد ہو جاتے ہیں۔
حل۔۔ خاموشی توڑنا، ہمدردی دکھانا، نظام بدلنا
عورتوں کو ان کے قانونی، سماجی، اور معاشی حقوق سے آگاہ کیا جائے۔لڑکیوں کو جہیز نہیں، تعلیم اور خود اعتمادی کا ہتھیار دیا جائے۔ لڑکیوں کو ایسے موڑ پر کھڑا کرنا چاہئے کہ کوئی اس پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے سو بار سوچیں ۔گھریلو خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ انحصار کے جال سے نکل سکیں۔مردوں کو بھی سکھایا جائے کہ خاموشی ظلم کی حمایت ہے۔ اگر وہ ظلم نہیں کرتے، تو ظلم دیکھ کر بھی چپ نہ رہیں۔
نتیجہ
زینب صرف ایک نام نہیں، وہ ان لاکھوں عورتوں کی نمائندہ ہے جو روز جیتی ہیں، روز مرتی ہیں، اور روز "صبر” کے نام پر ظلم سہتی ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس "صبر” کو عورت کی کمزوری نہیں، اس کی طاقت بنائیں۔ہمیں ان کی خاموش چیخوں کو آواز دینا ہوگی۔ کیونکہ اگر ہم خاموش رہے، تو کل کوئی اور زینب بھی اسکا شکار ہو سکتی ہے او وہ زینب ہماری اپنی بیٹی، بہن یا دوست بھی ہو سکتی ہے۔
زمانہ جبر کرے یا ستم کی راتیں ہو
عورت ہر حال میں ڈٹی رہتی ہے