پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر: ۔
ان تینوں کا جوڑ بھی عجیب تھا۔ شاعر، ملحد اور ملا۔ مگر تینوں جگری یار تھے۔ محلے دار اور بچپن کے ساتھی۔ شاعر اور ملحد دونوں فقرے تھے۔ اکثر فاقوں سے ہوتے تھے۔ ملا کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ اُس کی باہر کو لپکتی ہوئی توند اُس کے خاندانی مذہبی دکانداری کی غماز تھی ۔
اکثر شبِ جمعہ کو ملا، شاعر اور ملحد کو عشائیے پر مدعو کرتے تھے۔ آج بھی مسجد کے احاطے میں دونوں، ملا کے مہمان تھے۔ جس طرح بدمعاش کے لیے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح گھر گھر کا رزق ملا کے خون میں شامل ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ہر گھر کے طرح طرح کے پکوان جب اتحادالمومنین کی طرح آپس میں شیر و شکر ہو جاتے ہیں تو وٹامنز کی نئی اقسام وجود پاتی ہیں۔ تینوں نے رج کے پیٹ کھایا۔ ڈکار لیتے ہوئے ملا نے مسلم اُمہ کی تکالیف اور حالات کے پیشِ نظر اجتماعی استخارے کی صلاح دی۔ ماقبل حالاتِ حاضرہ پر خوب بے نتیجہ بحث ہوئی تھی۔ ملا کی ہدایات کے مطابق شرعی طریقہ اختیار کرتے ہوئے زندگی کے پیغام کے لیے سو گئے۔ جہاں زندگی خواب ہو، وہاں زندگی کے فیصلے خوابوں میں کیے جاتے ہیں۔ ہم عظیم خوابیدہ قوم جو ٹھہرے ۔
تینوں جب گہری نیند میں چلے گئے تو تینوں نے بیک وقت ایک ہی خواب دیکھا۔ غیبی آواز آئی: "پڑھ”۔ شاعر نے امن کا گیت پڑھا۔ ملحد نے زندگی کی صدا لگائی۔ ملا نے جنازے کی نیت پڑھی ۔