افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حافظ گل بہادر گروپ کے درمیان ایک نئی خونریز لڑائی شروع ہو چکی ہے، جس میں دونوں طرف سے بھاری جانی اور مالی نقصان کی اطلاعات ہیں۔ اس تنازعے کا آغاز دونوں تنظیموں کے مفادات اور اختیارات کے اختلافات سے ہوا، جو اب مسلح تصادم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں گروہ ننگرہار اور پکتیکا جیسے اہم علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد وہاں پر چھوڑے گئے 7 ارب ڈالر کا اسلحہ جس میں خودکار اسلحہ، مارٹر، میزائل اور دیگر بھاری ہتھیار شامل ہیں، اب دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ میں ہے۔ دونوں گروہ ان اسلحے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان تنظیموں کے پاس جدید ٹیکنالوجی سے لیس ڈرونز بھی موجود ہیں، جن کا استعمال وہ اپنی جنگی حکمت عملی کو مزید مؤثر بنانے کے لیے کر رہے ہیں۔
طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ جنگ صرف فوجی سطح پر نہیں ہو رہی بلکہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے زیر اثر علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے سیاسی اور اقتصادی مفادات پر بھی لڑ رہے ہیں۔ ان علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے سے دونوں گروہ نہ صرف اپنی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں بلکہ انہیں بیرونی فنڈنگ اور امداد حاصل کرنے کا بھی موقع ملے گا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حافظ گل بہادر گروپ کو ایک سخت الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ فوراً ننگرہار اور خوست سے نکل جائیں، بصورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا اور ان علاقوں سے بزور بازو ان کا صفایا کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے یہ الٹی میٹم دینے کے بعد ان علاقوں میں اپنے جنگجو بھیج دیے، جس کے نتیجے میں خونریز تصادم شروع ہو گیا۔
حافظ گل بہادر گروپ نے ٹی ٹی پی کی دھمکی کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کے عملداری کو چیلنج کر دیا، جس کے بعد دونوں تنظیموں کے درمیان جنگ مزید شدت اختیار کر گئی۔ ذرائع کے مطابق دونوں گروہ ننگرہار اور خوست میں بڑی تعداد میں جنگجوؤں اور اہم کمانڈروں کے ساتھ موجود ہیں، اور اس لڑائی میں دونوں طرف سے بھاری جانی و مالی نقصان کی اطلاعات ہیں۔
قبل ازیں، پاکستان اور ایران نے مل کر پراجیکٹ گڈن ایشا کے تحت ایک بڑی کارروائی کی تھی جس میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سرحد پار دراندازی اور تخریبی کارروائیوں کو ناکام بنایا گیا۔ ان کارروائیوں میں دونوں ممالک کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کو سرحد کے قریب سرگرم ہونے سے روکا۔ اس کے نتیجے میں کالعدم تنظیمیں افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کو ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کھل کر لڑنے پر مجبور ہو گئیں۔
پاکستان اور ایران کی مشترکہ کوششوں سے ان تنظیموں کو افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول میں مشکلات پیش آئیں، جس نے انہیں ایک دوسرے کے خلاف کھلی جنگ شروع کرنے کی ترغیب دی۔
طالبان ذرائع کے مطابق، دونوں دہشت گرد گروپوں کے درمیان مفادات کا ٹکراو اب ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے، اور یہ لڑائی اب صرف ننگرہار اور پکتیکا تک محدود نہیں رہی۔ یہ جنگ دیگر ملحقہ علاقوں تک پھیل چکی ہے، جس سے علاقے میں بڑے پیمانے پر نقصان ہو سکتا ہے۔ جنگ کی شدت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے عام شہریوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے، اور دونوں گروہوں کے درمیان جاری تشدد نے افغانستان میں پہلے سے ہی کمزور حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
دونوں گروہ ننگرہار اور پکتیکا جیسے اہم علاقوں کو اپنے زیر اثر لانے کے لیے ہر ممکن حربہ آزما رہے ہیں۔ ان علاقوں میں اہم مواصلاتی راستے، فوجی کیمپ اور قدرتی وسائل موجود ہیں، جو ان دہشت گرد تنظیموں کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ علاقے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے جڑے ہوئے ہیں، جو ان تنظیموں کے لیے بیرونی مدد حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتے ہیں۔
افغانستان میں جاری اس جنگ کا اثر نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور ایران کے لیے بھی شدید ہو سکتا ہے۔ دونوں تنظیموں کے درمیان ہونے والی لڑائی سے پورے علاقے میں عدم استحکام اور مزید خونریزی کا خدشہ ہے۔ افغانستان کے وزیر دفاع اور سیکیورٹی ادارے اس صورت حال کو قابو کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں سیاسی استحکام کی کمی اور حکومتی اداروں کی کمزوری نے اس لڑائی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
دونوں گروہوں کے آپس میں تصادم کا نتیجہ نہ صرف افغان عوام کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے پورے خطے میں دہشت گردی کے نئے خطرات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر اس جنگ کی شدت کے اثرات عالمی طاقتوں اور علاقائی ممالک کی پالیسیوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔