اسلام آباد (ارشد اقبال ناصح) 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بننے والے ملک کے پہلے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی جوڈیشل ایکٹیوازم کا آغاز بھی کردیا ہے۔ ایسا ہی آغاز ملک میں سب سے زیادہ عرصے تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہنے والے جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری نے بھی کیا تھا اور پھر ان کے بعد یہ سلسلہ ایک اور چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال پر ختم ہوا ۔لیکن سابق چیف جسٹسز اور موجودہ چیف جسٹس میں بہت نمایاں فرق ہے ۔افتخار محمد چودھری اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے رہے اور پیپلز پارٹی کو حکومت کرنے نہیں دی۔اسی طرح دیگر چیف جسٹس صاحبان کے دور میں بھی یہ معاملہ یونہی جاری رہا ۔وہ سوموٹو پر سوموٹو لیتے رہے لیکن یہ نہ سوچا کہ کس کیس میں سوموٹو لینا ناگزیر ہے ۔افتخار چودھری کے دور میں تو اگر کسی گھر میں بھنڈی کے بجائے کریلے پکتے اور اس گھر کے بچے جاکر سپریم کورٹ سے رجوع کرتے تو وہ اس پر بھی سوموٹو نوٹس لے کر انتظامیہ کی دوڑیں لگوا لیتے ۔اس سوموٹو کے بعد گھر میں کریلے پکتے اور نہ ہی گھر کے بچوں کو بھنڈی نصیب ہوتی۔
افتخار محمد چودھری کے دور میں مردان میں ایک گھر سے بچی غائب ہوئی ۔بچی کے والد او ر والدہ جاننے والے تھے انہوں نے مجھے فون کیا اور معاملہ بتایا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میں کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری اگر اس معاملے کا نوٹس لیں تو ہماری بچی گھر آجائے گی ۔میں ان دنوں اسلام آباد میں ایک اخبار کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک تھا اور سپریم کورٹ کی بیٹ کور کرتا تھا ۔میرے کئی خبروں پر افتخار چودھری نے سوموٹو نوٹس لئے تھے اور اس بات سے مذکورہ متاثرہ خاندان واقف تھا ۔میں نے ان کو سمجھایا کہ اگر میں نے اس حوالے سے خبر فائل کی اور چیف جسٹس صاحب کو ترجمان کے ذریعے بھجوادی تو یہ معاملہ بہت دور تک چلا جائے گا اور آپ لوگوں کی زندگی مزید اجیرن بن جائے گی۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ انہوں نے یوٹرن لیا اور کہا کہ بس ٹھیک ہے پولیس کی حد تک ہماری مدد کی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔بعدازاں وہ بچی خود ہی گھر آگئی تھی ۔
سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کی بات شروع ہوئی تو ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے ۔افتخار محمد چودھری ہی کے دور میں ایک بار میں سپریم کورٹ گیا ۔سبھی میں کورٹ روم نمبر 1 میں داخل ہی ہونے والا تھا کہ وہاں دروازے پر ترجمان سپریم کورٹ شاہد کمبو کے دفتر کا ایک آفس بوائے ملا، کیا کر رہے ہو، میں نے پوچھا، عبدالقیوم صدیقی صاحب سے ملنا ہے ،اس نے بتایا ، میں نے پوچھا کیا کام ہے ،صرف ان کو بتاونگا ،اس نے کہا ، پھر میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک فولڈ کیا ہوا کاغذ ہے ،میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس ” خفیہ کاغذ” میں کیا ہوگا ؟ یہ مجھے دو میں دے دونگا صدیقی صاحب کو، میں نے کہا ، پھر اس نے بتایا کہ یہ کاغذ صرف صدیقی صاحب کو دینے کی ہدایت کی گئی ہے ، یہ ہدایت کس نے کی ہے ، میں نے ایک سوال جھاڑ دیا تو کہنے لگا کہ آپ کو بتانے کا پابند نہیں ہوں، آفس بوائے کا یہ جواب سن کر میں نے زبردستی وہ اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور کورٹ روم نمبر ایک میں اندر گھس گیا ۔ اندر جاکر کاغذ کو پڑھا تو اس میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی جانب سے ایک معاملے پر سوموٹو نوٹس لینے کی خبر تھی جو پی آر آفس کی جانب سے آفس بوائے کو دی گئی تھی اور ہدایت کی گئی تھی کہ یہ صرف جیو کے رپورٹر کو دینی ہے ۔پھر وہ کاغذ میں نے قیوم صدیقی صاحب کو دیدیا اور شام کو آکر اخبار کیلئے وہی خبر فائل کردی۔
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد اور کچھ نہیں،صرف یہی ہے کہ اس ملک کی اعلی عدالتوں میں صرف ٹکرز اور خبریں من پسند میڈیا چینلز اور اخبارات پر چلوانے کیلئے اگر ایسی حرکتیں ہوں گی تو پھر ہماری عدلیہ کیسے انصاف فراہم کر سکے گی؟انتظامیہ،سیاسی جماعتوں اور دیگر اداروں کو توہین عدالت کی کارروائی کے خوف میں مبتلا کرکے اپنی دھاک بٹھانے کی حرکتیں ہوں گی تو پھر ملک ترقی کیسے کرے گا ؟یہ اور اس کے علاوہ اور بہت کچھ ایسے معاملات ہیں جن کو موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو دیکھنا ہوگا ،تین سالہ دور میں چیف جسٹس پاکستان کو صرف ایک نہیں، دو نہیں، درجن بھر بھی نہیں ،کئی چیلنجز کا سامنا ہے ، ملک کی ساری سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ کی فراہمی کا چیلنجز بھی درپیش ہوگا ،اور سب سے بڑھ کر عام آدمی کا عدالتوں پر اعتماد بحال کرنے کا چیلنج بھی درپیش ہے ۔ایسا نہیں کہ یہ چیلنجز حال ہی میں سامنے آئے ہیں بلکہ یہ گزشتہ کئی برسوں سے اعلیٰ عدلیہ کو درپیش ہیں لیکن سابقہ ادوار میں اپنی شہرت کے سبب اس طرف توجہ بالکل نہیں دی گئی ۔
سب سے بڑھ کر موجودہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سے حکمران اتحاد، اپوزیشن، دیگر ریاستی اداروں اور عام لوگوں کو کئی امیدیں ہیں ۔ایک اہم اور غور طلب بات جو ہمیشہ سے عام آدمی کا مسئلہ رہی ہے وہ یہ کہ ماتحت عدلیہ کو تباہی کرتی کرپشن کا خاتمہ بھی موجودہ چیف جسٹس کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ میں پیسے دے کر کیسز لگوانا بھی ایک بڑا سنگین مسئلہ اور فوری انصاف کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ چیف جسٹس کو اس طرف بھی دیکھا ہوگا ۔سابقہ چیف جسٹسز کے ادوار میں بہت سوموٹو لئے گئے ۔مذکورہ سارے کام سوموٹو لئے بغیر بھی ممکن ہیں ۔ لیکن اس کیلئے ماتحت عدلیہ اور وکلا برادری کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا لیکن ان پر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ کرپشن کرنے والے ججز اور دیگر عملے کو کسی قسم کی معافی نہیں ملے گی۔وکلا برادری سے بھی یقین دہانی لینے ہوگی کہ وہ کسی کیس کو تاخیری حربوں کی نذر کرنے سے گریز کرینگے ۔جہاں تک حکومت اور سیاسی جماعتوں کی بات ہے ۔ان سے نمٹنا اعلیٰ عدلیہ کیلئے ناممکن نہیں ۔لیکن یہ اس صورت میں ہوگا جب چیف جسٹس اپنے ادارے کے تمام ججز کو ’’فیصلے بولتے ہیں‘‘ کا پابند بنائیں گے ۔
منگل, دسمبر 3, 2024
بریکنگ نیوز
- نوجوان سپنر سفیان مقیم کی شاندار باولنگ، پاکستان کی دوسرے ٹی ٹوینٹی میچ میں بھی زمبابوے کو 10 وکٹ سے شکست
- وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے عوام کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے،وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام
- ڈی چوک احتجاج سے پی ٹی آئی نے کیا کھویا کیا پایا !
- پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ رابطوں کے فروغ پر مثبت بات چیت
- عمر ایوب اور فیصل گنڈاپور: راہداری ضمانت کے بعد عدالت میں سرنڈر ضروری، پشاور ہائیکورٹ
- پاکستان نے پہلی بار بلائنڈ ٹی 20 ورلڈ کپ جیت لیا
- ریاست مخالف مواد شئیرکرنے میں ملوث 924 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نشاندہی کر لی گئی
- تحریک انصاف اپنے جھوٹ سے رجوع کرے تو پارلیمانی کمیشن بنانے کے لیے تیار ہیں: رانا ثنا اللہ