کیا حکومت افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع دے گی، خیبر نیوز کےپروگرام کراس ٹاک میں تجزیہ نگاروں نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے
حکومت پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو دی جان والی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی ہے اور 15 اپریل سے افغان مہاجرین کارڈ اے سی سی اور پی او آر کی میعاد بھی ختم ہوگئی ہے جس کے بعد افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب یو این ایش سی آر اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان سے افغان مہاجرین کو جبری بے دخل نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس سلسلے میں مہاجرین پر کام کرنے والے ایڈوکیٹ سید لیاقت بنوری نے پروگرام کراس ٹاک میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے افغان مہاجرین کو 45 سال پناہ دی ہے اور حکومت پاکستان نے ہی انہیں مہاجرین کا درجہ دیا ہے اور انہیں افغان سٹیزن کارڈبھی پاکستان نے ہی انہیں دیا ہے۔ پاکستان نے ہی ان کو سہولت فہراہم کی ہے،لیکن انہوں نے پاکستان کی قدر نہیں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈر مل کر ایک مکمل حکمت عملی بنائے اور ایک روڈ میپ بنانے کے بعد ہی مہاجرین کو عزت کیساتھ اپنے ملک بھیجے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان جو تعلقات ہیں انہیں نقصان نہ پہینچ جائیں۔بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2002 میں حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں 3.5 افغان مہاجرین موجود ہیں جس میں سے 1.8 ملین مہاجرین کو واپس بھیجاگیا، 2007، 2016، 2013 میں تقریبا 40 لاکھ افغان مہاجرین واپس گئے ہیں لیکن اب بھی 4.5 ملین افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں نہ روزگار ہے، نہ تعلیم اور نہ صحت۔ ہم انہیں اپنے ملک بھیجتے ہیں لیکن یہ دوسرےراستوں سے واپس آجاتے ہیں اور صرف اس طرح ہمارےوسائل کا ضائع ہوجاتاہے۔ پاکستان، افغانستان، یو این ایچ سی آر کو ملکر ہی کوئی حکمت عملی بنانی ہوگی۔
پروگرام کراس ٹاک میں بات چیت کرتے ہوئےسیکیورٹی اور افغان امور کے ماہر سابق انسپیکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ نے کہا کہ تازہ ترین مہم میں سب سے پہلے پنجاب سے افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جارہاہے اور اس سلسلے میں تمام تر تیاریاں مکمل ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم نے پہلے افغان مہاجرین کو نکالنے کیلئے مہم چلائی اور ان کے بچے اور خواتین کو حوالاتوں میں بند کیا ، کاروبار ختم کروائے، اس سے پاکستان کے 45 سالہ مہمان نوازی کو بہت نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ اس دفعہ افغان مہاجرین کیخلاف مہم پہلے کی طرح نہیں ہوگی۔ اکنامک امیگرینٹس کو اپ روک نہیں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر افغان مہاجرین دہشت گردی میں ملوث ہیں تو انہیں روکنے کیلئے بہت سے اور اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ پچھلے بیس سالوں میں ہونے والے دہشت گردی اور جرائم میں صرف ایک فیصد افغان ملوث ہیں، انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین میں ایک بہت بڑا حصہ یہاں کاروبار سے وابستہ ہیں، اور ایک حصہ وہ ہے جہاں افغانستان میں انہیں طالبان سے جان کا خطرہ ہے جو افغانستان واپس جا نہیں سکتے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صرف ٹی ٹی پی نہیں بلکہ القاعدہ ، داعش سمیت دیگر دہشت گرد تنظیمں موجود ہے۔ لیکن طالبان ر پریشر ڈالنے سے پہلے ہمیں یہاں پر ان کے نیٹ ورک کو ختم کرنا ہوگا، اور افغانستان میں ان تنظیموں کیخلاف افغان طالبان کے صلاحیت کو بھی دیکھنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ افغان عوام کو پاکستان میں آنے سے میڈیکل ٹورازم، ٹرانسپورٹ، ہوٹل انڈسٹری کو نقصان ہورہا ہے۔ باڑدر بار بار بند کرنے سے ون بیلڈ ون روڈ منصوبے کو نقصان ہوگا جو طورخم کے ذریعے سینٹرل ایشیائ ممالک کو رسائی حاصل کرنا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر حسین سہروردی نے کہا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ حکومت ہر حال میں افغان مہاجرین کو نکالنا چاہتی ہے۔ اور یہ سارے فیصلے سیاسی فیصلے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے تعلقات طالبان سے اچھے نہیں ہے اور چاہتے ہیں کہ افغان طالبان پر پریشر ڈالے۔لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ایک طرف ہم چاہتے ہیں کہ باہر سے انویسٹمنٹ آجائے لیکن کیا افغان باہر انویسٹر نہیں ہے یا انوسٹر وہی ہوگا جس کا رنگ گورا ہے اور انگریزی بول رہا ہوگا؟انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں پاکستان اور افغانستان کےدرمیان تجارت پوٹینشل چھ ارب ڈالر ہیں لیکن صرف دو ارب ڈالر کی تجارت ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقستمی سے فارن آفس میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ پالیسی میکر نہیں بلکہ پالیسی بتانے والے ہیں۔ افغان طالبان پر پریشر ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ افغان مہاجرین کو نکالنے سے افغان طالبان اور افغان عوام میں تعلقات مظبوط ہوئے ہے۔ حالیہ اقدامات سے افغانستان سے زائد پاکستان کو نقصان پہنچ رہاہے۔ افغانستان نے دوسری علاقائی ممالک سے تجارتی تعلقات کو بڑھایا ہے جس سے نقصان پاکستان کو ہورہا ہے۔اب حکومت کو اس کا حل مل سیاست سے نہیں بلکہ دانشمندی سے کرنا ہوگا۔