خیبر نیوز کے پروگرام کراس ٹاک میں بات کرتے ہوئے رہنما جماعت اسلامی عنائت اللہ خان نے کہا ہے کہ ملاکنڈ اور قبائلی علاقوں میں ٹیکس دینے کی سکت نہیں ہے۔
پروگرام کراس ٹاک میں بات کرتے ہوئے عنایت اللہ خان نے وفاقی حکومت کی جانب سے ملاکنڈ اور سابقہ فاٹا میں ٹیکس نظام لانے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونے پر مخصوص ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ ملاکنڈ اور سابقہ فاٹا میں ٹیکس کا نفاذ ہے مگر محدود شعبوں تک ہے، باقی ان علاقوں میں ٹیکس کا نظام جوں کا توں ہے۔
آج اگر ملاکنڈ اور سابقہ فاٹا میں غربت کے اشاریے دیکھے جائیں تو یہ علاقے افریقی ممالک سے زیادہ پسماندہ ہیں، اسلئے ان پر مزید ٹیکس لانا جائز نہیں ہے۔ ملاکنڈ اور قبائلی اضلاع جو اب خیبر پختونخوا کا باقاعدہ حصہ ہیں ان علاقوں میں اگر اراضی کی ٹرانسفر پر ٹیکس نہیں ہے تو اسکی وجہ یہاں اراضی بندوبست نہ ہونا ہے، یہاں زیادہ تر علاقوں میں اراضی بندوبست کا نظام ہی موجود نہیں ہے تو اس پر ٹیکس کیسے لگایا جاسکتا ہے۔
عنایت اللہ خان نے مزید کہا کہ سیلز ٹیکس کا نظام یہاں باقی ماندہ ملک کی طرح موجود ہے مگر سروسز پر سیلز ٹیکس جو صوبائی ڈومین میں آتا ہے، ملاکنڈ اور قبائیلی اضلاع میں نافذ العمل نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عنایت اللہ خان نے کہا کہ پاٹا اور سابقہ فاٹا کا سٹیٹس ملک کے دیگر علاقوں سے الگ ہے یہ علاقے علیحدہ ریاستیں تھی جو پاکستان بننے کے بعد کچھ شرائط کی بنیاد پر پاکستان میں شامل ہوئی تھیں اور اس میں مخصوص ٹیکس سے استثنا شامل تھا۔
عنایت اللہ خان کے مطابق یہ علاقے دیگر زرائع سے ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے جسمیں صرف ملاکنڈ کے لوگ جو بیرون ملک سے بینکنگ چینلز کے ذریعے سالانہ چار ارب ڈالر اور نان بینکنگ چینلز کے ذریعے چھ ارب ڈالر کے محصولات ملک میں بھیجتے ہیں اور یہ صرف عرب ممالک سے ہیں، جو اُن ٹیکسز کے مقابلے میں جس سے استثنا حاصل ہے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسطرح یہ علاقے دیگر شعبوں میں جیسے مائننگ، تمباکو اور ٹیمبر اور ہائیڈل پاور کی شکل میں اربوں روپے کا ریونیو صوبائی حکومت کو دیتا ہے۔