اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے بلوچستان کے طلبہ کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی،جس میں انہوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ اب لانگ ٹرم مسنگ کا معاملہ شارٹ ٹرم مسنگ کی شکل اختیار کررہا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کے مطابق بلوچ طلبہ کی بازیابی سے متعلق کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی سماعت کی گئی اس سلسلے میں عدالت میں درخواست گزار ایمان مزاری ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ اس کے ساتھ ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل اور اسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران جسٹس محسن نے سوال کیا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے عہدیدران پر مشتمل کمیٹی بنادی گئی تھی، اس کمیٹی نے کیا کوئی ورکنگ کی ہے؟
اس پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ اگر عدالت عید کے بعد کا وقت دے، جس پر جسٹس محسن نے کہا کہ جو مسنگ ہیں کیا انہوں نے عید نہیں کرنی؟
جس پر ایمان مزاری نے دلائل دئیے اور کہا کہ میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں، ادھرکوئی اور بیان دیا جاتا ہے، جبکہ اس کے برعکس بلوچستان میں کچھ اور ہو رہا ہوتا ہے، گزشتہ سماعت کے بعد بھی مسنگ پرسنز کے نئے کیسز سامنے آئے ہیں، انیس الرحمان نامی شخص کو 5 جون کو خضدار سے جبری طور پر لاپتا کیا گیا،اس کے برعکس باقی طالب علم بازیاب ہوئے ہیں۔
جسٹس محسن اختر نے ایمان مزاری کے دلائل پر کہا کہ اب لانگ ٹرم مسنگ کا معاملہ شارٹ ٹرم مسنگ کی شکل اختیار کررہا ہے، کسی لیول پر پالیسی میکرز سے کسی نے سوال کیا؟ کیا وہ محسوس نہیں کر رہے ہیں کہ کس طرح ریاست کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے، ان میں ہوں گے ضرور دہشتگرد بھی لیکن جو بھی ہونا ہے قانون کے مطابق ہونا ہے۔
اس پر ایمان مزاری نے کہا کہ پہلے لاپتا کرتے ہیں پھر سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیتے ہیں، کیونکہ اب یہ معاملہ پورے ملک میں بڑھ رہا ہے۔
جس پر جسٹس محسن اختر نے کہا کہ ہر ایکشن کا ایک ری ایکشن ضرور ہوتا ہے،ان کو نہیں معلوم ایسے اقدامات سے ریاست کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے، ابھی تک عدالتوں نے بھی صرف لاپتا افراد کی ریکوری پر ہی فوکس کیا ہے،کبھی بھی ہم لاپتا افراد کی ریکوری سے آگے نہیں گئے۔