پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر:۔
برصغیر کی تاریخ میں پاکستان اور بھارت کا باہمی تعلق ایک ایسا پرخطر باب ہے، جو اکثر سفارتی دائرہ کار سے نکل کر جذبات کی منڈی میں نیلام ہونے لگتا ہے۔ ایٹمی صلاحیت اور عالمی دباؤ بلاشبہ ایک بڑی جنگ کے امکانات کو محدود رکھتے ہیں، مگر اصل خطرہ اُن آوازوں سے جنم لیتا ہے جو میڈیا کی سکرینز اور سیاست کے منبروں سے بلند ہوتی ہیں۔
میڈیا، جو کسی بھی جمہوری معاشرے کا ستون مانا جاتا ہے، مگر اس خطے میں اکثر اشتعال انگیزی کا سب بن جاتا ہے۔ دونوں جانب کے چینلز سنجیدہ تجزیے کے بجائے سنسنی کو ہوا دیتے ہیں۔ تصدیق سے پہلے نشر کیے گئے دعوے، بلند آہنگ نعروں میں ملفوف قومی حمیت، اور جذبات سے لبریز رپورٹنگ ، یہ سب مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جو امن کے امکانات کو زہرآلود کر دیتا ہے۔
سیاست دانوں کا طرزِ عمل بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ انتخابات کے ایام ہوں یا داخلی دباؤ، بھارت اور پاکستان کے قائدین اکثر جارحانہ بیانات کو عوامی مقبولیت کا زینہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ دشمنی کی اس روش میں نہ صرف سفارتی دروازے بند ہوتے ہیں، بلکہ خود اپنے عوام کی فکری تربیت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
تاہم تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ بردباری اور فہم و فراست نے کئی مواقع پر آگ کے شعلوں کو سرد کیا ہے۔ واجپائی-مشرف مذاکرات ہوں یا پسِ پردہ سفارتی کوششیں، قیادت جب سنجیدہ ہو تو ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ میڈیا اگر تحقیق اور ذمہ داری کے دائرے میں رہے، تو وہ جنگ کا نقیب نہیں بلکہ امن کا سفیر بن سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور قوم اور بطور خطہ یہ فیصلہ کریں کہ کیا ہم اشتعال کے سوداگر بننا چاہتے ہیں یا فہم و فراست کے پیامبر؟ جنگ کے نعروں اور ہوش کی صدا کے درمیان انتخاب ہمارے ہاتھ میں ہے۔