بلوچستان میں دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پنجاب کے بیٹوں نے اپنے پیچھے صرف جنازے ہی نہیں، بلکہ ایک پورا غم زدہ پاکستان چھوڑا ہے۔ شہداء میں دنیاپور کے دو سگے بھائی عثمان اور جابر، گجرات کا نوجوان بلاول، فیصل آباد کے شیخ ماجد، مظفرگڑھ کے محمد آصف، اور لاہور کے جنید شامل ہیں۔ ان سب کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں میں سپرد خاک کیا گیا۔
دنیاپور میں جب ایک ماں کے دو بیٹوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھے تو فضا آہ و بکا سے بھر گئی۔ عثمان اور جابر کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ مگر اُن کی والدہ نے ضبط کے ساتھ وطن سے محبت کے اشعار پڑھے۔ اُن کا کہنا تھا:
”میرے بیٹے شہید ہوئے، مگر وہ وطن پر قربان ہو گئے، میں ان پر فخر کرتی ہوں!“
فیصل آباد کے شیخ ماجد کئی برسوں سے لورالائی میں کپڑے کا کاروبار کر رہے تھے۔ ان کے بھائی آصف علی نے بتایا کہ وہ بے ضرر انسان تھے اور نہ ہی کسی تنازع میں ملوث تھے۔ ان کے اہل خانہ میں بیوی، والدہ اور تین بہن بھائی شامل ہیں۔
گجرات کے بلاول کی عمر محض 23 برس تھی۔ وہ دبئی سے واپس آ کر دوستوں سے ملنے کوئٹہ گیا تھا، مگر واپسی کا سفر اس کی زندگی کا آخری سفر بن گیا۔ ان کے والد نے کہا:
”بیٹا گیا، مگر باقی بیٹے پاکستان کے لیے زندہ رہیں گے!“
لاہور کے جنید اپنی اہلیہ کے ساتھ سسرال سے واپسی پر تھے جب دہشتگردوں کا نشانہ بنے۔ اب ان کی کمسن بیٹی یتیم ہو چکی ہے۔ اہلِ خانہ نے ریاست سے سوال کیا:
”ہمیں انصاف چاہیے، کیا ہماری سڑکیں نوگو ایریاز بن گئی ہیں؟“
یہ واقعہ بلوچستان میں پنجابی شہریوں کو بسوں سے اتار کر مارنے کا پہلا واقعہ نہیں۔ اپریل 2024 میں ضلع نوشکی میں منڈی بہاؤالدین اور گوجرانوالہ کے 9 افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
شہداء کے اہل خانہ اور عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست قاتلوں کو فوری طور پر کیفرِ کردار تک پہنچائے، ورنہ ہر دروازے پر شہادت کا نوحہ لکھا جائے گا۔