پاکستان کی موجودہ حالتِ زار کا جب بھی تجزیہ کیا جاتا ہے تو تمام تر تنقید کا رخ حکمران طبقات، اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، عدلیہ یا بیوروکریسی کی طرف ہوتا ہے ۔ عوامی بیانیہ یہی ہے کہ ہم مظلوم ہیں، ہمیں لوٹا گیا ہے، ہمیں استعمال کیا گیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا عام آدمی واقعی صرف مظلوم ہے؟ کیا وہ خود اس بگاڑ کا حصہ نہیں؟ کیا وہ اپنی زندگی میں قانون، اخلاق اور پیشہ ورانہ دیانت کے اصولوں پر پورا اترتا ہے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہمارے قومی احتساب کا آغاز ہو سکتا ہے ۔
پاکستانی معاشرہ ایک ایسا اجتماعی کردار اختیار کر چکا ہے جو تضادات سے بھرا ہوا ہے ۔ عام فرد بظاہر مذہب پسند، عبادات کا پابند، اور دینی جذبات سے سرشار ہے، لیکن اس کی روزمرہ زندگی میں جھوٹ، چالاکی، حسد، رشوت، اور خودغرضی رچ بس چکی ہے ۔ وہ نماز میں عاجزی دکھاتا ہے مگر کاروبار میں ناپ تول میں کمی کرنے سے نہیں چوکتا ۔ وہ حج و عمرہ کی سعادت کے باوجود دو نمبر مال فروخت کرنے یا جھوٹا وعدہ کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا ۔ اس دو رُخی طرزِ زندگی نے فرد سے لے کر معاشرے تک ہر سطح پر اخلاقی انتشار پیدا کر دیا ہے ۔
قانون سے متعلق رویوں کو دیکھا جائے تو عمومی رجحان یہی ہے کہ قانون صرف کمزور کے لیے ہے ۔ طاقتور کو کوئی نہیں پکڑتا، لہٰذا عام آدمی بھی چھوٹے موٹے قانون توڑنے کو اپنا حق سمجھتا ہے ۔ ٹریفک سگنل توڑنا، قطار توڑنا، بغیر رسید کے خریداری کرنا، بجلی یا گیس کی چوری، سب کچھ معمول کی بات بن چکی ہے ۔ اور اگر کبھی کوئی روکے تو دلیل یہ ہوتی ہے کہ سب ہی تو کرتے ہیں، میں کیوں نہ کروں؟ یہ رویہ صرف قانون شکنی نہیں، بلکہ اجتماعی ضمیر کی موت ہے ۔ قانون پر اعتماد اور عمل درآمد صرف تب ممکن ہے جب ہر شہری خود کو بھی اس کے دائرے میں لائے ۔
پیشہ ورانہ دیانت داری کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ۔ چاہے وہ استاد ہو، کلرک، ڈاکٹر، انجینئر، مزدور یا صحافی. اکثر لوگ اپنے فرائض کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ وقت کی پابندی، معیار کی پاسداری، اور ایمانداری کو کمزور اقدار سمجھا جاتا ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ بچوں کو پڑھانے سے زیادہ غیر حاضری یا ٹیوشن پر توجہ دیتے ہیں ۔ دفاتر میں فائلیں اس وقت تک نہیں چلتی جب تک "چائے پانی” نہ دیا جائے ۔ ڈاکٹر اپنی ذاتی کلینک کے مفاد میں سرکاری ہسپتال کے مریضوں کو نظر انداز کرتا ہے ۔ صحافی خبر کے بجائے سرخی بیچتا ہے ۔ یہ سب صرف اداروں کی ناکامی نہیں، بلکہ فرد کے کردار کا بحران ہے ۔
بے شک یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاستی سطح پر عدل، تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ عوام کو وہ ماحول ہی نہیں دیا گیا جس میں وہ ایک مہذب اور قانون پسند شہری بن سکیں ۔ مگر کیا یہ جواز کافی ہے کہ ہم بھی ویسے ہی بن جائیں جیسے ہمیں ہمارے حکمرانوں نے بنایا ہے؟ کیا باشعور انسان صرف ماحول کا پرتو ہوتا ہے؟ انسان وہی ہوتا ہے جو بگڑے ماحول میں بھی سچ، انصاف اور دیانت کا راستہ چنے ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کو مکمل بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ وہ نہ تو مکمل مظلوم ہے اور نہ ہی سراسر مجرم ۔ وہ اس نظام کا پروردہ بھی ہے اور اس کا حصہ بھی ۔ وہ اس کی خرابیوں سے متاثر بھی ہے اور خود اس بگاڑ کو آگے بڑھانے میں شریک بھی ۔ اگر ہم واقعی پاکستان کو ایک بہتر ملک دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں احتساب کا آغاز خود سے کرنا ہو گا ۔ محض حکمرانوں کو کوسنے سے کچھ نہیں بدلے گا جب تک ہم خود اپنے اعمال کا جائزہ لینے کو تیار نہ ہوں ۔
یہ وقت ہے کہ عام آدمی خود سے سوال کرے: کیا میں ایک ذمہ دار شہری ہوں؟ کیا میں اپنے حصے کا فرض ایمانداری سے ادا کرتا ہوں؟ کیا میں قانون کا احترام کرتا ہوں؟ کیا میں اپنے بچوں کو سچائی، دیانت اور انصاف کا سبق دیتا ہوں؟ یہ سوالات تلخ ہیں، مگر انہی میں مستقبل کی روشنی چھپی ہے ۔ اگر ہم نے خود احتسابی کی جرأت کر لیں، تو شاید یہی عام آدمی ایک دن پاکستان کو عظیم قوم بنانے میں مرکزی کردار ادا کرے ۔