دنیا میں استاد کا مرتبہ بہت بلند ہے، وہ بچوں کی تربیت کا مشکل ترین کام بخوابی سرانجام دیتا ہے ۔ کیونکہ وہ انسان کو نادانی سے آگاہی، اندھیرے سے روشنی، اور کمزوری سے طاقت کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک ایسا کردار جو اپنی ذات کی نفی کرکے دوسروں کو سنوارتا ہے، جو ہر دن اپنے طلباء کے لیے جیتا ہے، ان کے خوابوں کو حقیقت میں ڈھالتا ہے، اور پھر خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ کر ان کی کامیابیوں پر مسکراتا ہے ۔
خواب: .
یہ کہانی ہے ماسٹر حبیب اللہ کی، جو خیبرپختونخوا کے ایک سکول میں گزشتہ کئی سالوں سے تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، ایک چھوٹے سے کمرے میں، جس کی چھت ٹپکتی ہے، جس کی دیواروں پر پینٹ اکھڑا ہوا ہے، وہ ہر صبح سب سے پہلے پہنچتے ہیں، جھاڑو دیتے ہیں، بورڈ صاف کرتے ہیں، اور تختی پر
بسم اللہ ۔۔ لکھ کر دن کی شروعات کرتے ہیں ۔
ماسٹر صاحب کے پاس نہ لیپ ٹاپ ہے، نہ پروجیکٹر، نہ ہی کوئی سمارٹ ٹیچنگ ٹول، لیکن ان کا انداز تدریس ایسا ہے کہ بچے ان کے ایک ایک لفظ پر دھیان دیتے ہیں، گویا علم نہیں، زندگی سیکھ رہے ہوں ۔
ایک جذبہ: ۔
ماسٹر صاحب کو ہمیشہ یاد رہتا ہے وہ دن جب انھوں نے پہلی بار ساجد کو سکول میں داخل کیا ۔ ساجد ایک خاموش، الجھا ہوا سا بچہ تھا۔ وہ اکثر دیر سے آتا، کبھی ہوم ورک مکمل نہ ہوتا، اور کبھی بغیر کاپی کتابوں کے سکول آ جاتا ۔ کئی اساتذہ نے اسے نالائق قرار دے کر ہاتھ کھینچ لیا، لیکن ماسٹر صاحب نے کچھ اور دیکھا ،،،،، ایک چمک، ایک چپ چھپی تڑپ،،،
ایک دن ماسٹر صاحب نے ساجد کو روک لیا، اور نرمی سے پوچھا،
بیٹا۔۔۔ کیا بات ہے؟
ساجد کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔۔۔سر، ابا بیمار ہیں، میں صبح سبزی بیچتا ہوں ۔۔۔سکول دیر سے آتا ہوں ۔
یہ وہ لمحہ تھا جب استاد نے صرف کتابوں کا نہیں، ایک بچے کا ہاتھ تھاما ۔ ماسٹر صاحب نے ساجد کو بعد از سکول پارٹ ٹائم پڑھانا شروع کیا ۔ وہ اسے کھانے کو کچھ دیتے اور ہمت دیتے ۔ وقت گزرتا گیا، ساجد بہتر ہوتا گیا، اور ایک دن وہ ضلع بھر کے امتحانات میں اول آیا ۔
کامیابی، محنت: ۔
ساجد کی کامیابی ماسٹر صاحب کی محنت کا پہلا بڑا صلہ تھی، لیکن وہ رکنے والے نہ تھے ۔ ان کے شاگردوں میں سے کئی اب ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر اور سرکاری افسر بن چکے ہیں ۔ وہ اکثر سکول آ کر ماسٹر صاحب سے ملاقات کرتے، ان کے ہاتھ چومتے اور بچوں کو بتاتے، جو کچھ بھی ہوں، ان کی بدولت ہوں ۔
استاد کی اہمیت: ۔
استاد صرف ایک پیشہ نہیں، یہ ایک مقدس فریضہ ہے ۔ استاد ہی ہے جو بچے کے اندر چھپے ہوئے ہیرو کو پہچانتا ہے، جو اس کی خاموشی میں چھپے درد کو سمجھتا ہے، اور جو اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے استاد کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کا وہ حقدار ہے ۔ کم تنخواہ، ناقص سہولیات، اور معاشرتی بے اعتنائی کے باوجود وہ روزانہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوتا ہے، صرف اس امید پر کہ شاید آج کسی بچے کی آنکھ میں چمک آ جائے، شاید آج کسی ذہن کو نئی سوچ ملے ۔
احساسِ قربانی: ۔
ماسٹر حبیب آج بھی موٹر سائیکل پر سکول آتے ہیں، سردی ہو یا بارش، کبھی غیر حاضر نہیں ہوتے ۔ ان کا اپنا بیٹا آج کسی پرائیویٹ ادارے میں پڑھتا ہے، لیکن ماسٹر صاحب کا کہنا ہے
کہ میرا فرض ہے کہ جن بچوں کے والدین فیس نہیں دے سکتے، ان کو وہی تعلیم دوں جو اپنے بیٹے کو دلاتا ہوں ۔ علم امیر و غریب میں فرق نہیں کرتا ۔
خواب کی تعبیر: ۔
کئی سال بعد، ساجد ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کر کے واپس اپنے گاؤں آیا ۔ اس نے سب سے پہلے ماسٹر صاحب کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ ہاتھ میں گلدستہ، چہرے پر عاجزی ۔
سر۔۔۔ میں آج ڈاکٹر ساجد ہوں،،، اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہے ۔
ماسٹر صاحب کی آنکھیں بھر آئیں ۔ انھوں نے کہا، یہ تو میرا فرض تھا، تم نے خواب پورا کیا، مجھے تم پر فخر ہے ۔یہ لمحہ ایک استاد کی پوری زندگی کا صلہ ہوتا ہے، جب اس کا شاگرد کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ کر اس کا شکریہ ادا کرتا ہے ۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ایک استاد کو لگتا ہے، میری زندگی بیکار نہیں گئی ۔
معمارِ قوم: ۔
آج جب دنیا جدیدیت کی طرف دوڑ رہی ہے، جب آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ٹیکنالوجی، اور ڈیجیٹل لرننگ کا دور ہے، تب بھی ایک سادہ سا استاد، ایک چاک اور ایک بورڈ کے ساتھ، انسانوں کو باشعور انسان بنا رہا ہے ۔
ہمیں استاد کو صرف ٹیچر نہیں، ایک رہنما، ایک معمار، ایک محسن کے طور پر دیکھنا چاہیے ۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہو گا کہ جس طرح ماں باپ کے قدموں تلے جنت ہے، ویسے ہی استاد کے قدموں تلے روشنی ہے ۔