اسرائیل نے جمعہ کے روز صومالی لینڈ کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا، جس کے بعد وہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے یہ قدم اٹھایا ۔
یہ اعلان اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے صومالی لینڈ کے صدر عبد الرحمن کے ساتھ ویڈیو کال کے دوران کیا، جس کے بعد دونوں رہنماؤں نے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے ۔
اسرائیلی وزیراعظم کے مطابق یہ فیصلہ معاہدہ ابراہم کی روح کے مطابق کیا گیا ہے، جن کا آغاز 2020 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے ہوا تھا۔ اسرائیلی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں گے، جن میں سفیروں کی تقرری اور سفارتخانوں کا قیام شامل ہوگا، نیتن یاہو نے صومالی لینڈ کے صدر کو اسرائیل کے سرکاری دورے کی دعوت دی اور زراعت، صحت، ٹیکنالوجی اور معیشت کے شعبوں میں فوری تعاون کا وعدہ کیا ۔
صومالی لینڈ کے صدر عبد الرحمن عبداللہی نے اس فیصلے کو تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ابراہم اکورڈز میں شمولیت کا خواہاں ہے اور یہ اقدام خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دے گا۔ فیصلے کے اعلان کے بعد دارالحکومت ہرگیسا میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، قومی میوزیم پر اسرائیلی پرچم کی روشنی ڈالی گئی اور جشن منایا گیا ۔
صومالی لینڈ نے 1991 میں صومالیہ سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا اور تب سے یہ عملی طور پر ایک خودمختار انتظامیہ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اس کی اپنی کرنسی، پارلیمنٹ، سیکیورٹی فورسز اور انتخابی نظام موجود ہے۔ یہ علاقہ ماضی میں برطانوی کالونی رہا اور 1960 میں مختصر عرصے کے لیے آزاد بھی ہوا تھا، تاہم عالمی سطح پر تسلیم نہ ملنے کے باعث یہ اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل نہ کر سکا ۔
آبادی کے لحاظ سے صومالی لینڈ ایک مسلمان اکثریتی خطہ ہے جہاں تقریباً پوری آبادی اسلام (سنّی مسلک) سے تعلق رکھتی ہے۔ اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے اور سماجی و قانونی معاملات میں مذہبی اقدار کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، جس کے باعث اسے مسلم دنیا کا ایک قدامت پسند مگر منظم معاشرہ سمجھا جاتا ہے ۔
معاشی طور پر صومالی لینڈ ایک محدود مگر خود انحصار معیشت رکھتا ہے، ماہرین کے مطابق اس خطے کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا تخمینہ تقریباً 4 ارب ڈالر کے قریب ہے، جبکہ فی کس آمدنی 900 سے 1500 ڈالر کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ معیشت کا بڑا دارومدار مویشی پالنے، زراعت اور خلیجی ممالک کو جانوروں کی برآمدات پر ہے، جبکہ بیرون ملک مقیم صومالی شہریوں کی ترسیلات زر مقامی معیشت کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔
عالمی سطح پر تسلیم نہ ہونے کے باعث صومالی لینڈ کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں تک براہ راست رسائی حاصل نہیں، جس سے ترقیاتی منصوبے محدود رہتے ہیں ۔
ماہرین کے مطابق اسرائیل کا یہ اقدام سٹریٹجک نوعیت کا ہے، صومالی لینڈ کی خلیج عدن اور باب المندب کے قریب جغرافیائی حیثیت اسرائیل کو بحیرہ احمر میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف ممکنہ انٹیلی جنس اور سیکیورٹی تعاون میں فائدہ دے سکتی ہے، بربرہ بندرگاہ کی توسیع اور ممکنہ لاجسٹک یا فوجی سہولیات اسرائیل کے علاقائی اثر و رسوخ میں اضافہ کر سکتی ہیں، جبکہ ایک مسلم اکثریتی خطے کے ساتھ تعلقات اسرائیل کی سفارتی تنہائی کم کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھے جا رہے ہیں ۔
دوسری جانب صومالیہ کی وفاقی حکومت نے اسرائیل کے اس فیصلے کو غیر قانونی جارحیت اور اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیا، صدر حسن شیخ محمود اور وزیراعظم نے واضح کیا کہ صومالی لینڈ صومالیہ کا اٹوٹ حصہ ہے اور کسی بھی یکطرفہ اقدام کو مسترد کیا جائے گا ۔
اسرائیلی فیصلے پر افریقی یونین، عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم اور خلیجی تعاون کونسل نے بھی سخت ردعمل دیا اور صومالیہ کی علاقائی سالمیت کی حمایت کا اعلان کیا، مصر، ترکی اور جبوتی کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں اسے خطرناک مثال قرار دیا، جبکہ القاعدہ سے منسلک صومالی تنظیم الشباب نے اسرائیل کے کسی بھی کردار کی مزاحمت کا اعلان کیا ۔
اسلامی تعاون تنظیم کے جنرل سیکریٹریٹ نے کہا کہ یہ اقدام او آئی سی چارٹر، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، او آئی سی اور 21 مسلم ممالک، جن میں سعودی عرب، مصر، ترکی، ایران، پالستان، قطر، اردن، الجزائر، عراق، کویت، عمان، لیبیا، فلسطین، صومالیہ، سوڈان، یمن، کوموروس، جبوتی، گیمبیا، مالدیپ اور نائیجیریا شامل ہیں، نے مشترکہ بیان میں صومالیہ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیویارک پوسٹ کو انٹرویو میں کہا کہ وہ فی الحال صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کی حمایت نہیں کرتے اور ممکنہ امریکی فوجی بیس کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا، تاہم ریپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز سمیت بعض امریکی رہنماؤں نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے ۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ فیصلہ متنازع ہے، تاہم اس سے صومالی لینڈ کے لیے بین الاقوامی منڈیوں، سرمایہ کاری اور سفارتی روابط کے نئے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں، جبکہ خطے کے سیاسی اور سیکیورٹی توازن پر اس کے اثرات آنے والے دنوں میں مزید واضح ہوں گے ۔

