باجوڑ کے عوام نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جسے نہ صرف جرات مندانہ کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی بیداری کی علامت بھی ہے۔ خوارجین کی جانب سے مساجد کے ناجائز استعمال، گھروں کی حرمت پامال کرنے اور معاشرے میں بدامنی پھیلانے کے خلاف باجوڑ کے مقامی لوگوں نے سیکورٹی فورسز سے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ اس وقت کیا گیا جب مقامی افراد نے دیکھا کہ ان کے گلی محلوں اور عبادت گاہوں کو فسادی عناصر نے اپنا مرکز بنا لیا ہے، اور دین کے نام پر دہشت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
خوارج کی موجودگی کسی ایک علاقے یا مخصوص طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری قوم اور امت کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مسجد جیسے مقدس ادارے کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے نہیں گھبراتے۔ اسلام میں مسجد امن، سکون اور اللہ کی عبادت کی جگہ ہے، نہ کہ اسلحے کے انبار، خونی منصوبہ بندی یا خوف کی فضا کا مرکز۔ تاریخ اسلام میں "مسجد ضرار” کی مثال ہمارے سامنے ہے، جسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ ﷺ نے گرا دیا کیونکہ وہ مسجد نہیں، فساد کی آماجگاہ تھی۔ آج کے خوارج بھی اسی تاریخ کو دہرا رہے ہیں اور اسی مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔
علما کرام کا بھی اس پر متفقہ مؤقف ہے کہ ایسے فتنہ پرور عناصر کا قلع قمع کرنا صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر مسلمان کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے۔ جب مساجد کو اسلحہ گاہیں اور منصوبہ بندی کے مراکز بنایا جائے تو یہ صرف ریاستی سلامتی نہیں بلکہ دین کی روح پر بھی حملہ ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ مسجد میں ہتھیار تک چھپانے سے منع کیا گیا ہے، تو ایسی جگہوں سے فساد پھیلانے والوں کا کیا حال ہوگا؟
بدقسمتی سے دشمن اب ہماری صفوں میں ہی چھپا ہوا ہے—ہمارے گھروں، ہماری گلیوں، ہماری مسجدوں میں۔ اس خاموشی کو اب ختم کرنا ہوگا۔ یہ صرف ریاست کی جنگ نہیں، یہ ہماری جنگ ہے۔ ہمارے بچوں، ہماری مساجد، اور ہمارے دین کو خوارج کے فتنے سے بچانا ہمارا فرض ہے۔ باجوڑ کے عوام نے ایک مثبت مثال قائم کی ہے، جس کی تقلید پورے ملک کو کرنی چاہیے۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے خوارج کے خلاف جو فیصلہ کن کارروائی شروع کی گئی ہے، وہ قابل تحسین ہے اور اس کی بھرپور حمایت کی جانی چاہیے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم بھی فیصلہ کریں: کیا ہم ریاست کے ساتھ کھڑے ہو کر ان فسادیوں کا راستہ روکیں گے یا اپنی خاموشی سے ان کے ناپاک عزائم کو تقویت دیں گے؟ باجوڑ سے اٹھنے والی یہ آواز دراصل پورے پاکستان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ وقت بولنے، کھڑے ہونے اور کردار ادا کرنے کا ہے — خاموش تماشائی بننے کا نہیں۔