اسلام آباد سے افضل شاہ یوسفزئی کا بلاگ:۔
یہ شاید سننے میں عجیب لگے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ انٹرنیٹ کے میدان میں پاکستان کبھی بھارت سے آگے تھا۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں، جب جنوبی ایشیا میں انٹرنیٹ کا رجحان نیا نیا تھا، پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی شرح بھارت سے بہتر تھی۔
ورلڈ بینک کے ایک حالیہ چارٹ کے مطابق، 2005 تک پاکستان میں 5 فیصد سے زائد لوگ انٹرنیٹ سے جڑ چکے تھے، جبکہ بھارت ابھی اس سطح پر پہنچنے کی جدوجہد کر رہا تھا۔
ابتدائی سبقت کی کئی وجوہات تھیں، ٹیلی کام سیکٹر کی نجکاری، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی موجودگی، اور شہری علاقوں میں بہتر انفراسٹرکچر نے پاکستان کو ایک نمایاں برتری دلائی ۔
مگر 2010 کے بعد کہانی کا رخ بدل گیا۔
بھارت نے نہ صرف رفتار پکڑی بلکہ 2016 کے بعد ‘ڈیجیٹل انڈیا’ جیسے منصوبوں کے ذریعے انٹرنیٹ کو گھر گھر پہنچا دیا۔ موبائل نیٹ ورکس، خاص طور پر ‘ (Jio) کی آمد نے بھارت میں انٹرنیٹ کو بے حد سستا اور عام کر دیا۔
آج بھارت کی انٹرنیٹ رسائی کی شرح 43 فیصد سے زائد ہے، جبکہ پاکستان ابھی تک 31 فیصد پر ہی کھڑا ہے ۔
یہ اعدادوشمار صرف ڈیٹا پوائنٹس نہیں بلکہ قومی حکمتِ عملی اور ترقیاتی وژن کے آئینہ دار ہیں۔ بھارت نے ڈیجیٹل ترقی کو اپنی معیشت، تعلیم اور حکومت کے ساتھ جوڑ کر ایک نئی راہ بنائی۔ جبکہ پاکستان نے اپنی ابتدائی برتری کے باوجود اسے برقرار رکھنے میں کوتاہی کی۔
پاکستان میں نہ صرف انٹرنیٹ مہنگا ہے، بلکہ اس کی رسائی بھی شہری علاقوں تک محدود ہے۔ دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل سہولیات کا شدید فقدان ہے۔
تعلیمی ادارے اب بھی روایتی انداز میں چل رہے ہیں اور ڈیجیٹل خواندگی کا فقدان عام ہے۔ نوجوانوں کو آن لائن روزگار کے مواقع کے لیے درکار تربیت اور معاونت نہیں مل پا رہی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان یہ خلا پُر سکتا ہے؟
جی ہاں لیکن اس کے لیے محض دعوے نہیں، عملی اقدامات ضروری ہیں۔
حکومت کو چاہیئے کہ ٹیلی کام سیکٹر کو مزید سہولت دے، دیہی علاقوں میں براڈ بینڈ سہولیات پہنچائے، اور انٹرنیٹ کو سستا اور مستحکم کرے۔
اساتذہ، طلباء اور عام شہریوں کے لیے ڈیجیٹل تربیتی پروگرامز شروع کیے جائیں،ای-کامرس، فری لانسنگ، اور آن لائن بزنس کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ نوجوان خودمختار ہو سکیں۔
اگر پاکستان نے آج بھی سنجیدہ اقدامات کیے تو نہ صرف یہ خلا پُر کیا جا سکتا ہے، بلکہ ڈیجیٹل میدان میں ایک بار پھر قیادت کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔
یاد رکھیں، دنیا آگے بڑھ رہی ہے — اور ہمارے پاس بھی رکنے کا وقت نہیں۔