جنوبی ایشیا جو ایک عرصے سے سیاسی اور جغرافیائی تناؤ کا شکار رہا ہے، اب ایک بار پھر بھارت کے مسلسل بڑھتے ہوئے جنگی عزائم کے باعث شدید خطرات کی زد میں ہے۔ نئی دہلی کی جانب سے عسکری طاقت کے جنون نے نہ صرف خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے بلکہ پاکستان جیسے ہمسایہ ممالک کو بھی اپنے دفاعی ڈھانچے کو ازسرِ نو ترتیب دینے پر مجبور کر دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے واضح کر دیا ہے کہ بھارتی قیادت کا سارا عسکری محور پاکستان کے گرد ہی گھومتا ہے۔ چاہے وہ لائن آف کنٹرول پر مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوں یا پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینا، بھارت کی پالیسی ہمیشہ اشتعال انگیزی پر مبنی رہی ہے۔ "معرکہ حق آپریشن بنیان مرصوص” میں ناکامی کے بعد جب بھارت کو جنگ بندی کے لیے امریکا کا سہارا لینا پڑا، تو یہ ایک واضح ثبوت تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی امن میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے جبکہ بھارت جارحیت کی راہ پر گامزن ہے۔
بھارت کا دفاعی بجٹ 2025-26 کے لیے 6.81 لاکھ کروڑ روپے یعنی تقریباً 77.4 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے، جو پچھلے برس سے 9.5 فیصد زیادہ ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کے مطابق گزشتہ 10 برسوں میں بھارت کے دفاعی اخراجات میں 170 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس بڑے پیمانے پر ہونے والا اضافہ نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کے حصول بلکہ پاکستان کے خلاف جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بھارت کی عسکری جارحیت میں اسرائیلی ساختہ ہیروپ، ہارپی اور سوارم ڈرونز جیسے جدید ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں، جو خودکار اور خودکش خصوصیات کے حامل ہیں۔ ساتھ ہی بھارتی فضائیہ نے پاکستان کی سرحد کے قریب وسیع پیمانے پر مشقیں کی ہیں جنہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد کی سب سے بڑی فضائی سرگرمیاں کہا جا رہا ہے، جن میں رافیل، میراج 2000 جیسے جدید لڑاکا طیارے شامل تھے۔
اب ایک اور اہم اقدام کی خبر گردش میں ہے کہ بھارتی وزارت دفاع 10,000 کروڑ روپے مالیت کے I-STAR اسٹرائیک اور نگرانی طیارہ منصوبے کی منظوری دینے والی ہے، جس کا مقصد بھارت کی فضائی برتری کو مزید مستحکم کرنا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کا دفاعی بجٹ عشروں سے دباؤ میں ہے، تاہم اس کے باوجود پاکستانی افواج نے دہشت گردی کے خلاف قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پاکستان کا دفاعی بجٹ زیادہ تر تنخواہوں، پنشن، شہداء فنڈز اور سوشل سیکیورٹی پر خرچ ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور دفاعی خود کفالت کے لیے پاکستان کو نئے اقدامات کی ضرورت ہے، خاص طور پر سائبر وارفیئر، ڈرون ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور انفارمیشن وارفیئر جیسے شعبوں میں۔
چین اور دیگر دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کو جدید دفاعی معاہدوں کی پیشکش بھی کی گئی ہے، جن میں ففتھ جنریشن J-35 سٹیلتھ طیارے، KJ-500 ایواکس اور HQ-19 لانگ رینج میزائل دفاعی نظام شامل ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز کا حصول یقیناً ایک بھاری بجٹ کا متقاضی ہے، لیکن یہ سرمایہ کاری پاکستان کی دفاعی خودمختاری اور سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
اگرچہ پاکستان کا دفاعی بجٹ بھارت کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے، تاہم بدلتے ہوئے علاقائی حالات، بھارت کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون، اور جدید جنگی تقاضوں کے پیش نظر پاکستان کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ دفاعی بجٹ میں دانشمندانہ اور بروقت اضافہ کرے تاکہ ملکی دفاع ناقابلِ تسخیر بنایا جا سکے۔