سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی کی خصوصی تحری:۔
کچھ لوگ لفظوں سے جملے بناتے ہیں، اور کچھ جملوں سے زندگیاں…
کچھ لکھنے والے ہوتے ہیں، اور کچھ وہ جنہیں زمانہ لکھتا ہے۔
خالد خان بھی انہی خوش بختوں میں سے ہیں جنہوں نے لفظ کو محض اظہار نہیں، ایک پیغام، ایک مشن اور ایک عہد بنایا۔ وہ قلم کو کاغذ پر چلانے کے بجائے دلوں پر لکھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے تخلیقی سفر کی ہر منزل قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
چارسدہ کے مٹیالے میدانوں سے اُٹھنے والی یہ صدا آج عالمی افق پر سنائی دیتی ہے۔ زبان کی قید سے آزاد، ثقافت کے دائرے سے وسیع، اور مقصدیت کی روشنی سے روشن خالد خان نے اردو، انگریزی، پشتو اور دری زبانوں کو وہ فکری وسعت دی ہے جو صرف وہی دے سکتا ہے جو خود وسعتِ نظر، کشادگیِ فکر، اور گہرائیِ احساس رکھتا ہو۔
ان کی شاعری میں محبت کی لطافت بھی ہے اور مزاحمت کی حرارت بھی۔
ان کی نثر میں تہذیب کی خوشبو بھی ہے اور استدلال کی گونج بھی۔
وہ جب لکھتے ہیں تو لگتا ہے جیسے کسی صوفی نے قلم اٹھایا ہو، اور جب بولتے ہیں تو گویا ایک معلمِ قوم درس دے رہا ہو۔
صحافت ہو یا ادب، ریڈیو ہو یا تھیٹر، ٹیلی ویژن ہو یا اشتہارات، وہ جس دائرے میں داخل ہوتے ہیں، اسے نئی جہت دیتے ہیں۔ ان کی ہر تحریر میں ایک مقصد چھپا ہوتا ہے، ایک پیغام ہوتا ہے، اور ایک جذبہ ہوتا ہے – خدمت کا، بیداری کا، اور اصلاح کا۔ شاید یہی وہ عناصر ہیں جنہوں نے ان کی تحریروں کو وقتی شہرت کے بجائے دائمی اثر عطا کیا۔
میں نے ان کے بارے میں پڑھتے ہوئے، ان سے گفتگو کرتے ہوئے اور ان کے فن کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایک بات ہمیشہ محسوس کی: یہ آدمی خود ایک مکمل درسگاہ ہے۔
فکر کا ایک مدرسہ، ادب کا ایک خانقاہ، اور سچائی کا ایک منبر۔
یہ کالم صرف ان کی تعریف نہیں بلکہ ان کی تحریک کا اعتراف ہے۔
یہ تحریر ایک خاموش شکرگزاری ہے اس آواز کے لیے جو شور میں بھی پیغام دیتی ہے، اور خاموشی میں بھی ارتعاش پیدا کرتی ہے۔
خالد خان، آپ کا تخلیقی وجود ان گنت قلم کاروں، نوآموز لکھاریوں، اور فکری مسافروں کے لیے ایک چراغ ہے، جو راتوں کے اندھیروں میں راہیں روشن کرتا ہے۔
لفظوں کے اس مسافر کو سلام،
جس نے فکر کو صداقت بخشی،
اور فن کو عبادت کا درجہ دیا۔