خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں دو فریق کے درمیان جاری تنازعے کے حل کیلئے تمام سیاسی جماعتوں نے کوششیں کیں تاہم اب دونوں فریق کے درمیان امن معاہد طے پاگیا ہے جس کے نکات درج ذیل ہیں !
معاہدے کے مطابق مقامی امن کمیٹی کسی بھی تنازعے کی صورت میں اسے حل کرے گی اور ناکامی کی صورت میں ضلعی کمیٹی معاملے کو دیکھے گی ۔
مقامی کمیٹیوں کی ناکامی کی صورت میں گرینڈ جرگہ، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مداخلت کریں گے ۔
معاہدے کا ایک اہم نکتہ بھاری اسلحہ جمع کرنا اور مورچے مسمار کرنا ہے، اس کا فیصلہ صوبائی کابینہ اور ایپکس کمیٹی پہلے ہی کر چکی ہے ۔
معاہدے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ مورچوں کو ایک ماہ کے اندر ختم کیا جائے گا اور سڑکوں اور شاہراہوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا ۔
معاہدے کے نکات میں یہ بھی شامل ہے کہ علاقے میں کسی قسم کی کارروائی کی صورت میں قریبی گاؤں کے رہائشی ذمہ دار ہوں گے ۔
معاہدے کا ایک اور نکتہ سوشل میڈیا اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے حوالے سے ہے، جس کے مطابق ایسا افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔
معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ اس امن معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی بھی قبیلہ پناہ نہیں دے گا ۔
ضلع کرم میں 2007 سے 2011 کے درمیان ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران مری میں ایک معاہدہ فریقین کے مابین ہوا تھا جس کو ’’مری معاہدہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
تاہم معاہدے کے مطابق فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع حالات کے مطابق معروضی زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مری معاہدے پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے ۔
معاہدے میں ٹل پاڑہ چنار روڈ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ تمام سرکاری سڑکوں پر کسی قسم کی کارروائی کرنے پر حکومت ایکشن لے گی جبکہ کسی بھی شرپسند کو علاقے کے لوگ پناہ یا قیام و طعام میں معاونت نہیں کریں گے۔
معاہدے کے مطابق جن علاقوں سے بجلی، ٹیلی فون یا کیبل گزرتی ہے یا مستقبل میں گزاری جائیں گی یا روڈ تعمیر کرنے کی ضرورت پڑی، تو فریقین کی جانب سے بھرپور تعاون کیا جائے گا ۔
معاہدے کے ایک نکتے میں لکھا گیا ہے کہ آئندہ فریقین پناہ میں لیے گئے افراد کا ہر صورت تحفظ یقینی بنائیں گے اور لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی ۔
معاہدے میں سرکاری ملازمین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ضلع بھر میں احسن طریقے سے خدمات کی سرانجام دہی میں مشران پشتون ولی دستور کے مطابق مہمان کی حیثیت سے دیکھ بھال کریں گے ۔