سانحہ 9 مئی میں براہ راست کون ملوث تھا؟ انکشافات سے بھرپور تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آگئی۔ یہ رپورٹ نگراں حکومت نے تیار کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق کابینہ کمیٹی کو فراہم کردہ شواہد کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ فوجی تنصیبات پر پرتشدد حملوں کی منصوبہ بندی میں عمران خان نے ’بھرپور کردار‘ ادا کیا تھا اور شواہد کے مطابق، حملوں کی منصوبہ بندی میں پارٹی کے کئی رہنما شامل تھے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’’اب تک کی گئی تحقیقات کے مطابق 34 افراد ایسے تھے جو سڑکوں پر پرتشدد کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈ تھے جنہوں نے پرتشدد واقعات اور بربادی پھیلانے کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کیا۔
اس کے علاوہ، 52؍ افراد نے مفصل منصوبہ بندی میں کردار ادا کیا اور 185؍ نے اس پر عمل کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’حکمت عملی کے تحت، عمران خان کی گرفتاری سے کئی دن قبل پارٹی کے حامیوں اور مسلح افراد کو صوبہ خیبر پختونخوا سے لاہور پہنچایا گیا تھا اور انہیں شہر کے مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا تھا۔
ان کے اخراجات پارٹی رہنما اور ہمدرد برداشت کرتے تھے۔ ان لوگوں کو پہلے مرحلے میں عمران خان کی گرفتاری کیخلاف مزاحمت اور گرفتاری کی صورت میں آخری حربے کے طور پر تشدد اور بربادی پھیلانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ 9؍ مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد یہ افراد پہلے سے طے شدہ مختلف مقامات پر کھڑے ہوگئے تاکہ پارٹی کے دیگر کارکنوں کو وہاں سے ریلی کی صورت میں لے جاسکیں۔
شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اشارہ ملتے ہی ان لوگوں نے ہجوم کے جذبات کو مزید بھڑکا دیا، ہجوم کو جی ایچ کیو اور لاہور میں جناح ہاؤس کی طرف لے گئے۔
ان مقامات پر موجود لوگوں کے بیانات ریکارڈ کرنے پر معلوم ہوا کہ ہجوم میں سے آوازیں آرہی تھیں کہ مخصوص مقامات کی طرف مارچ کیا جائے اور مزاحمت کرنے والی آوازیں خاموش کر دی جائیں۔ جیسے ہی یہ لوگ مخصوص مقامات پر پہنچے، انہوں نے پرتشدد کارروائیاں شروع کر دیں اور دوسروں کو بھی اس میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔
رپورٹ کے مطابق، ’’9؍ مئی کے پرتشدد واقعات کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ افراد فوجی تنصیبات سمیت مختلف مقامات پر حملوں کیلئے محتاط حکمت عملی پر عمل کر رہے تھے۔ فون کالز کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فون کالز پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے جناح ہاؤس پر حملوں کیلئے فسادیوں کو کی تھیں۔
ایک دن قبل ہی ان رہنماؤں نے فسادیوں کو متعدد فون کالز کی تھیں۔ بعد میں گرفتار ہونے والے کئی مجرموں نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ انہیں تشدد اور تباہی پھیلانے اور کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جیسے مخصوص اہداف پر حملہ کرنے کی ہدایات پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملی تھیں۔
9؍ مئی 2023 کے واقعات عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں پرتشدد اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے کی منظم حکمت عملی کا حصہ تھے۔ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے عمران خان کی گرفتاری کا امکان بڑھتا گیا پارٹی قیادت نے ان کی گرفتاری کی صورت میں جواباً فوجی تنصیبات پر حملوں، تشدد اور بربادی پھیلانے کیلئے حکمت عملی مرتب کی۔
’’ عمران خان طویل عرصہ سے حکومت سے اپنی بے دخلی کا ذمہ دار فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتے رہے ہیں اور ان کے ساتھ وہ مذاکرات کیلئے تیار تھے۔ عمران خان نے کئی مرتبہ دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی توہین کی اور ان کے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے بھی مسلسل انکار کیا۔
جب مسلح افواج نے سیاست میں شامل ہونے انکار کیا تو عمران خان اور ان کی پارٹی نے ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جس سے فوج پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ مقامی اور بیرونی پلیٹ فارمز کے ذریعے میڈیا کے ذریعے دباؤ کا یہ سلسلہ جاری رکھا گیا۔
عمران خان نے کسی بھی موقع پر 9؍ مئی کے واقعے کی مذمت یا تردید نہیں کی، بلکہ عوام اور مسلح افواج کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کیلئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر دفاعی تنصیبات پر حملہ کرکے اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے کی حکمت عملی مرتب کی گئی۔
مقصد یہ تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک کا غصہ فوج پر نکالنے کیلئے پارٹی کارکنوں کو موقع دینا اور ساتھ ہی فوج کو پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کیلئے دباؤ میں لانا تھا۔ یہ حکمت عملی ایک سادہ مفروضے پر مبنی تھی کہ غیر مسلح مظاہرین اور فوج کے درمیان تصادم سے فوج مخالف جذبات پیدا ہوں گے، اس طرح عوام اور مسلح افواج کے درمیان خلیج پیدا ہو جائے گی، ایسی خلیج فوج کو سیاست میں شامل ہونے پر مجبور کر دے گی۔ رپورٹ کے اختتام میں لکھا ہے کہ ’’فراہم کردہ معلومات، دستاویزات اور مواد کا جائزہ لینے کے بعد کمیٹی کی رائے ہے کہ 9؍ مئی 2023ء کے واقعات کی ذمہ دار صرف پی ٹی آئی کی قیادت ہے۔
9؍ مئی کے واقعات مربوط و منظم اور فوج پر دباؤ ڈالنے کیلئے تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی کا حصہ تھے۔ یہ اقدام ریاست، اس کے اداروں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر بالواسطہ دباؤ ڈالنے کے مترادف تھے۔‘‘جن لوگوں نے ان جرائم کی منصوبہ بندی کی، اسے عملی جامہ پہنایا، اور معاونت کی، انہیں قانون کی بھرپور طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تفتیشی اداروں، استغاثہ اور عدلیہ کو چاہئے کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو فوری انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے۔