ایک آدمی کے گھر نامعلوم چوروں نے رات کو چوری کی،صبح اس کے چند دوست ان سے اظہار ہمدردی کے لئے گئے،ایک دوست نے پوچھا کہ جب چور چوری کرنے آئے تو آپ کہاں سوئے تھے؟صحن میں یا کمرے میں؟ اس نے کہا کہ صحن میں،تو اس نے کہا کہ یار تمہیں کمرے میں سونا چاہئے تھا،دوسرے نے پوچھا کہ مین گیٹ کو بڑا تالا لگایا تھا یا چھوٹا؟اس نے کہا کہ درمیانہ تالا لگایا تھا،اس نے کہا کہ تمہیں بڑا تالا لگانا چاہئے تھا۔ تم بھی کیا پاگل ہو ان حالات میں کوئی چھوٹا تالا لگاتا ہے؟تیسرے نے کہا کہ دروازے کو زنجیر لگائی تھی یا بلٹ؟اس نے کہا کہ زنجیر ،تو اس نے کہا کہ تمہیں مضبوط بلٹ لگانی چاہئے تھی،اس آدمی نے کہا کہ یہ چھوڑو کہ میرے گھر چوری ہوئی ہے پہلے یہ بتاو کہ تم لوگ چوروں کی طرف ہو یا میری طرف داری کررہے ہو؟کیونکہ آپ کی ساری ہمدردیاں تو چوروں کے ساتھ ہیں اور آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ چور بالکل معصوم ہیں اور ساری غلطی میری ہے۔
بالکل پی ٹی آئی بھی آج کل ایسا ہی کردار ادا کررہی ہے کہ اس کے بارے کسی کو معلوم نہیں کہ پی ٹی آئی وفاقی حکومت کے ساتھ ہے یا پشتونوں کے قتل کے خلاف؟ایک طرف وفاقی حکومت کے ساتھ محاذ جنگ پر،دوسری طرف صوبائی پولیس کو وفاقی حکومت(پی ٹی آئی کے بقول)کی ہدایات پر پشتونوں کو احتجاج سے روکا جارہاہے پھر ان پر فائرنگ کی جاتی ہے۔ تین نوجوان اس لئے موت کے گھاٹ اتارے گئے کہ ان کو اپنی سرزمین پر امن چاہئے تھا،ایک طرف وفاق پر چڑھائی دوسری طرف اپنے(پی ٹی آئی کے بیانات کے تناظر میں)تسلیم شدہ دشمن وزیرداخلہ کو سی ایم ہاوس میں دعوت،آخر کب تک پی ٹی آئی پشتونوں کے ساتھ یہ چوہے بلی کا کھیل کھیلے گی؟کب تک ان ہی پشتونوں کو لیکر اسلام آباد پر چھوڑ کر خود بارہ اضلاع سے گزر کر واپس آئینگے؟
دوسری طرف پولیس کو بھی اس قدر بے بس کیا ہے کہ اکثر پولیس والے احساس کمتری کے شکار اور بہت سوں کو ذہنی بیمار بنادیاہے،پولیس میں اس قدر مداخلت شائد پہلے کسی حکومت نے کی ہو جس طرح پی ٹی آئی کے کرتا دھرتا آج کررہے ہیں،رہی سہی کسر صوبائی حکومت کی حالیہ قانون سازی پوری کریگی،پہلے تو ایک ایس ایچ او کو ایک ہی دن میں پی ٹی آئی کی مداخلت پر دو ،دو دفعہ ٹرانسفر کیا جاتاتھا اب آر پی اوز،ڈی پی اوز اور ڈی آئی جیز کی یہ حالت ہوگی کہ کسی مقامی ایم پی اے یا ناظم کی شکایت پر ان کو سی ایم ہاوس کا ببرشیر(جس کی بہادری اسلام آباد دھرنے میں سب نے دیکھی)ایک ہی دن میں ادھر سے ادھر کے احکامات صادر فرماتے رہیں گے۔
اسی پولیس سے اپنارعب ودبدبہ بھی قائم کروانا چاہتے ہیں،اسی پولیس کو غیرقانونی طور پر احتجاجوں میں بھی ڈالتے ہیں اور اسی پولیس کو زیرعتاب لانا بھی پی ٹی آئی کا شائد خفیہ منشور بن چکاہے؟
پولیس کریں بھی تو کیا کریں؟وطن کی مٹی کی خاطر یوں سر ہتھیلیوں پر رکھ کر نچھاور کرتی رہیں،یا شہزادوں کی روز نئی نئی عذابوں سے خود کو بچائے؟
آج ناظم صاحب ناراض ہے،کل ارباب صاحب نے کال کیا تھا،پرسوں ایم پی اے نے اس تبادلے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
پولیس کے اعلیٰ آفیسرز اپنی ذمہ داریاں پوری کریں یا ان کی فرمانوں کی بجاآوری کو یقینی بنائیں؟
خود پی ٹی آئی کو بھی سوچنا چاہئے کہ اس صوبے کی پولیس نے امن کی خاطر،وطن کی خاطر اور عوام کی خاطر کتنی قربانیاں دی ہیں،پھر ان پر اپنی قیادت کی برتری ثابت کرنے کے لئے کم از کم ان کو مزید عذابوں میں تو مبتلا نہ کیا جائے۔
یہاں امن،روزگار،چاہئے،کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے،مہنگائی نے عوام کا جینا محال کررکھاہے۔
صرف خان کی آزادی عوام کا مسئلہ نہیں،خان کو نہ کھایا جاسکتاہے نہ پیا جاسکتاہے،اور بھی بہت سارے غم،مسئلے اور درد ہیں جن سے عوام گزر رہی ہیں،عوام نے ووٹ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے دیا تھا نہ کہ احتجاجوں اور لڑائی جھگڑوں کے لئے۔
کب تک اس دوغلی پالیسی سے عوام کو مطمئن کرنے کی ناکام کوششوں کا سہارا لیا جائیگا،خدا را اس قوم اور اس صوبے پر رحم کرو۔
ورنہ اس کے بعد نہ چراغوں میں روشنی ہوگی نہ مونچوں کو دینے کے لئے تیل دستیاب ہوگا۔
پھر وہی ہو کا عالم ہوگا جس میں شہد اور شہد کی بوتلیں ہی ہر طرف نظر آئینگی،
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔