(مدثر حسین کی خصوصی تحریر)
کل جب سوشل میڈیا کھولا تو ہر طرف ایک ہی خبر زیر گردش تھی، خبر تھی ثناء نامی ٹک ٹاکر کا بہیمانہ اور بے رحمانہ قتل، اور پھر بیمار زہنیت کے لوگوں کے اس قتل پر رنگا رنگ تبصرے،تجزئیے اور بیکار کی قیاس ارائیاں، فورا دماغ میں سوال ابھرا کہ آخر ٹک ٹاکروں میں ہی یاری دوستیاں اور پھر بات لڑائی جھگڑوں اور جان لینے تک کیوں پہنچتی ہے؟ اس سوشل میڈیا ایپ میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ آئے دن کوئی ٹک ٹاکر یا تو اپنی دوستیوں کے سبب قتل ہو رہی ہے یا پھر اس کی کوئی نازیبا ویڈیو لیک ہو رہی ہے۔ پشاور کے دو ٹک ٹاکرز کی نشہ کی زیادتی سے موت بھی کوئی پرانے واقعات نہیں، آج کل فیس بُک، انسٹا گرام، وغیرہ سے زیادہ ٹریفک ٹک ٹاک پر ہے۔ راقم خود بھی استمال کنندہ ہے، یعنی ایسا نہیں کہ خود پارسا اور دوسروں پر تبری بھیجنا، لیکن ٹک ٹاکرز کی اسطرح اموات کوئی معمولی بات نہیں، ماہرین نفسیات اور سماجیات کو اس پر ریسرچ کرنا چاہیے۔ ریسرچ سے یاد آیا، کہ تعلیمی تحقیق یعنی اکیڈمک ریسرچ میں ہماری یونیورسٹیاں خطے میں سب سے پیچھے ہیں ۔
یہاں پروفیسرز کی ڈگریاں اور ریسرچ پیپرز پلیجرزم سے بھرے پڑے ہیں تو وہ طلباء کو کیا سیکھائیں گے، تو جناب یہ ہے ہماری نئی نسل کا المیہ۔ انکے سامنے رول ماڈلز نہیں، تبھی تو وہ ٹک ٹاک کی فلٹر زدہ چیزوں کو اصل زندگی سمجھ لیتے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے راتوں رات شہرت کی ہوس بڑھ گئی ہے ۔ جسمانی نمائش سے دولت کا حصول، ہر اوٹ پٹانگ چیز کو نیو نارمل بنانے کی دُھن، روز روز نت نئے کرتب دکھانے کا شوق، طوفانی محبتیں، انتہائی نفرتیں، انٹرنیٹ کھاتے ہیں، انٹرنیٹ پیتے ہیں، انٹرنیٹ جیتے ہیں، ٹک ٹاک کا سرچڑھا جادو دیکھنا ہو تو یہ دیکھیں کہ "باو” کی آواز پشتونوں میں سب سے مقبول ہے، یہاں تک کہ پشاور میں خیبر ٹی وی کی طرف سے فلم لوگرو کے گانے کو لانچنگ تقریب میں موجود لوگ فلسمٹار ہمایوں سعید سے بھی باو،باؤ کرنے کی پرزور فرمائش کرتے پائے گئے ۔
دیکھا جائے تو یہ تربیت کی کمی کا شاخسانہ ہے ۔ والدین، اساتذہ، تعلیمی،سماجی و سیاسی اور معاشی ماڈلز سب اسکے ذمہ دار ہیں ۔ تعلیمی ادارے ڈیری فارمز بنے ہوئے ہیں۔ جہاں سکھینے سے زیادہ کھونٹے سے بندھے رہنے پر زور ہے۔ ہر سال لاکھوں بیکار ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں جن کی مارکیٹ میں کھپت ہے، نہ معیار عالمی سٹینڈرڈ کے مطابق، پوسٹ گریجویشن کرنے والے انگریزی میں درخواست لکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ کاروبار میں بڑے سرمایہ داروں نے آپس میں مل کر مناپلی بنالی ہیں۔ بظاہر ایک دوسرے کے حریف لیکن پراڈکٹ پرائس کنٹرول کرنے میں ایک دوسرے کے حلیف ہیں ۔ اسے انگریزی میں جنٹلمین ایگریمنٹ کہا جاتا ہے ۔ مسابقتی کمیشن بھی انکا کچھ نہیں بگاڑ سکا،چھوٹا سرمایہ کار یا نیا بزنس سٹارٹ کرنے والا چند ماہ میں ڈوب جاتا ہے ۔ مارکیٹ اسے سسٹم سے فلش کر دیتی ہے کیونکہ بڑے مگرمچھوں سے مقابلہ کرنے کو اس کے پاس استطاعت ہوتی ہے نہ مالی حیثیت۔ ایسے میں نوجوان شارٹ کٹس مارنے کے علاوہ کیا کریں ۔
بدقسمتی سے بہت کم یہاں کوئی نیا بزنس ماڈل، نئی پراڈکٹ یا نیا ویژن ہوگا، سب بیرونی بزنس ماڈلز کی کاپیاں ہیں ۔آئی بی اے اور لمز جیسے ادارے بھی بچوں کو آؤٹ آف باکس سوچنے پر مجبور کرنے سے قاصر ہو رہے ہیں ۔ کیا اوورسیز اور کیا پاکستان میں بستے لوگ سب کا ایک ہی بزنس رہا اور وہ تھا پراپرٹی خرید کر رکھ لینا، بیچ دینا یا کرایہ پر دے دینا ۔ سارا کالا اور سفید پیسہ اسی سیکٹر میں لگ گیا ۔ معیشت امپورٹ بیس رہی ۔ مینوفیکچرنگ یونٹس میں سرمایہ کاری نہیں ہو سکی ۔ اس کی وجہ یہ بھی کہ ریاستیں اپنے ایکسپورٹر کو ٹیکس ربیٹ بھی دیتی ہیں، ون ونڈو آپریشن کی سہولیات بھی مہیا کرتی ہیں تاکہ ایکسپورٹر پھلے پھولے اور ملک میں زرمبادلہ آئے۔ یہاں ایکسپورٹر کو تُن کے رکھنے کا رواج رہا۔ امپورٹرز ٹیکس بچانے کو انڈر انوائسنگ کے بے تاج بادشاہ بنے ہوئے ہیں ۔ والدین کو دو وقت کی روٹی کمانے، تعلیمی اخراجات اٹھانے، گھر بنانے سے فرصت نہیں ۔
طبقاتی تقسیم انتہا درجے کی گہری ہے ۔ امیر بے تحاشہ دولت جمع کر لیتا ہے ۔ غربت انتہا کی غربت ہے۔ بارہ کروڑ لوگ خط غربت کے نیچے سانس لے رہے ہیں ۔ پاکستان میں نئی گاڑیوں کی کمی نہیں ۔ ڈالا اور گن مین کلچر نارمل ہے ۔مہنگائی کا رونا روتے روتے بڑے شہروں کا کوئی ریسٹورنٹ بھی شام کو خالی نہیں ملتا ۔ پیسہ گردش کی بجائے چند ہاتھوں تک مرتکز ہوچکا ہے ۔ نتیجتآ سماجی ڈھانچہ زبوں حالی کا شکار ہے ۔ لوگ مایوسی میں سوشل میڈیا پر میمز دیکھ کر غم غلط کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کو معاشی اصلاحات کے ذریعے سوشل میڈیا کی دوڑ سے باہر لاکر پیداوری پاور پاوسز بنانا ہوگا، تاکہ معاشرہ حقیقی معنوں میں ترقی کرے، اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پھر قتل، دیگر جرائم، چوری، ڈاکے،فراڈ،وغیرہ رک جائیں گے، لیکن کم ازکم انکی شرح ضرور کم ہوگی ۔