Close Menu
اخبارِخیبرپشاور
    مفید لنکس
    • پښتو خبرونه
    • انگریزی خبریں
    • ہم سے رابطہ کریں
    Facebook X (Twitter) Instagram
    جمعرات, جولائی 17, 2025
    • ہم سے رابطہ کریں
    بریکنگ نیوز
    • بلوچستان میں آپریشن، فتنہ الہندوستان کے 3 دہشتگرد ہلاک، میجر سید رب نواز طارق شہید
    • قلات کے قریب مسافر بس پر فائرنگ، 3 افراد جاں بحق، 14 زخمی
    • شمسی توانائی: روشن مستقبل یا بھاری ٹیکسوں کا اندھیرا؟۔ تحریر ندا خان
    • برطانیہ نے پاکستانی ایئرلائنز کے لیے راستہ کھول دیا
    • جنوبی وزیرستان میں دہشتگرد حمید اللہ ہلاک، اہل خانہ کا لاش لینے سے انکار
    • خیبرپختونخوا کا میگا کرپشن اسکینڈل: 25 ارب روپے کے اثاثے برآمد، لگژری گاڑیاں، جائیدادیں اور سونا ضبط
    • افغان طالبان کے جنگجو پاکستان میں دہشتگردی کے لیے متحرک، ویڈیو منظرعام پر
    • برطانیہ کا پاکستان سے تجارتی تعلقات بڑھانے کا اعلان
    Facebook X (Twitter) RSS
    اخبارِخیبرپشاوراخبارِخیبرپشاور
    پښتو خبرونه انگریزی خبریں
    • صفحہ اول
    • اہم خبریں
    • قومی خبریں
    • بلوچستان
    • خیبرپختونخواہ
    • شوبز
    • کھیل
    • دلچسپ و عجیب
    • بلاگ
    اخبارِخیبرپشاور
    آپ پر ہیں:Home » مشرقِ وسطیٰ: محدود جنگ کا نقطۂ عروج ہے یا عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز؟
    بلاگ

    مشرقِ وسطیٰ: محدود جنگ کا نقطۂ عروج ہے یا عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز؟

    جون 16, 2025کوئی تبصرہ نہیں ہے۔4 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    The Middle East: The culmination of a limited war or the beginning of a global war?
    دنیا کی نظریں اب اس سوال پر جمی ہوئی ہیں کہ کیا یہ ایک محدود جنگ کا نقطۂ عروج ہے یا کسی بڑی عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز؟
    Share
    Facebook Twitter Email

    مشرقِ وسطیٰ کے سینے میں ایک نئی آگ دہک اٹھی ہے، جس نے نہ صرف دو دیرینہ دشمنوں کو براہِ راست ہولناک جنگ میں ملوث کیا ہے بلکہ پوری دنیا کو ایک بڑے تصادم کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان برسوں سے جاری پراکسی کشمکش نے اب کھلے جنگی معرکے کی صورت اختیار کرلی ہے، جہاں کوئی پردہ باقی رہا ہے نہ کوئی خاموشی۔ گزشتہ چند روز میں حالات اس قدر تیزی سے بدلے کہ دنیا محض دیکھتی رہ گئی۔ اسرائیل نے ’آپریشن رائزنگ لائن‘ کے نام سے ایک ایسا بھرپور فضائی حملہ کیا، جو جدید تاریخ کے مہلک ترین حملوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ایران کے حساس ایٹمی تنصیبات، عسکری اڈے، اور پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈ سینٹرز، حتیٰ کہ تہران جیسے مرکزی شہر بھی نشانے پر آئے۔

    یہ حملے محض فضائیہ تک محدود نہیں تھے۔ خفیہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی جانب سے ڈرونز کے ذریعے تباہی اور نگرانی کی کارروائیاں پہلے ہی شروع کی جا چکی تھیں۔ ایران کو جوابی کارروائی کا موقع ملا تو اس نے تاخیر کیے بغیر سینکڑوں میزائل اور ڈرون اسرائیلی شہروں پر داغ دیے۔ تل ابیب، حیفہ، اور دیگر شہری مراکز میں دھماکوں کی گونج سنائی دی، درجنوں عمارتیں لرز اٹھیں اور کئی زندگیاں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔

    اب تک ایران کی جانب سے 370 سے زائد میزائل اور حملہ آور ڈرونز داغے جا چکے ہیں، جبکہ اسرائیل کی جدید فضائی دفاعی نظام نے بیشتر کو روک لیا، مگر اس کے باوجود کم از کم 24 شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں، اور 300 سے زائد زخمی ہیں۔ ایرانی سرزمین پر ہلاکتوں کی تعداد سرکاری طور پر 224 بتائی گئی ہے، مگر آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتیں 400 سے تجاوز کرچکی ہیں، جن میں اعلی فوجی قیادت اور ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی شامل ہیں۔

    صورتحال اس قدر نازک ہوچکی ہے کہ اسرائیل اب زمین دوز ایٹمی تنصیبات جیسے فردو پلانٹ پر براہ راست حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے لیے امریکہ سے ملنے والے بنکر بسٹر بموں کے استعمال کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ واشنگٹن بظاہر اس جنگ سے علیحدگی کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ واضح اشارے ملے ہیں کہ اگر ایرانی حملے امریکی مفادات یا افواج کے قریب پہنچے تو امریکہ براہِ راست مداخلت کر سکتا ہے۔

    تہران، اصفہان اور دیگر شہروں میں بدترین خوف کی فضا ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نکل رہے ہیں۔ اسرائیل نے بھی کم و بیش 3 لاکھ 30 ہزار شہریوں کو ان علاقوں سے نکالنے کا حکم دے دیا ہے جہاں جوابی حملوں کا خطرہ زیادہ ہے۔ دونوں ملکوں کے تیل، بجلی، اور رہائشی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے، اور عام انسان اس آگ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

    دوسری طرف سفارتی محاذ پر بھی غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی سے علیحدگی کی دھمکی دی ہے، اور یہ اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ وہ ریڈیوایکٹیو "ڈرٹی بم” کے ذریعے انتقامی کارروائی پر اتر آئے گا۔ ایران کے وزیر خارجہ نے براہِ راست امریکہ سے رجوع کرتے ہوئے اسرائیل کو روکے جانے کے عوض جوہری معاہدے میں نرمی کی پیشکش کی ہے، مگر اسرائیل کی جانب سے اس تجویز پر مکمل خاموشی ہے۔

    اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، چین اور ترکی سمیت عالمی برادری نے پرزور اپیل کی ہے کہ دونوں ممالک فوری طور پر جنگ بندی کریں، مگر اس وقت تک میدانِ جنگ میں صرف بارود کی زبان بولی جا رہی ہے۔ چار دن گزر چکے ہیں، اور ہر نیا دن نئے حملوں، نئی لاشوں، اور نئے خدشات کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔

    یہ صرف اسرائیل اور ایران کا معاملہ نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا طوفان ہے جو اگر نہ روکا گیا تو لبنان، شام، خلیجی ممالک، اور حتیٰ کہ عالمی طاقتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ دنیا کی نظریں اب اس سوال پر جمی ہوئی ہیں کہ کیا یہ ایک محدود جنگ کا نقطۂ عروج ہے یا کسی بڑی عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز؟

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleدشمن کا انتخاب صوابدیدی ہے
    Next Article لکی مروت میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکہ ،6 سیکیورٹی اہلکار زخمی
    Khalid Khan
    • Website

    Related Posts

    شمسی توانائی: روشن مستقبل یا بھاری ٹیکسوں کا اندھیرا؟۔ تحریر ندا خان

    جولائی 16, 2025

    برطانیہ نے پاکستانی ایئرلائنز کے لیے راستہ کھول دیا

    جولائی 16, 2025

    پختونخوا کے عوام اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے صوبائی حکومت کو گیلپ سروے میں مسترد کر دیا

    جولائی 14, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    Khyber News YouTube Channel
    khybernews streaming
    فولو کریں
    • Facebook
    • Twitter
    • YouTube
    مقبول خبریں

    بلوچستان میں آپریشن، فتنہ الہندوستان کے 3 دہشتگرد ہلاک، میجر سید رب نواز طارق شہید

    جولائی 17, 2025

    قلات کے قریب مسافر بس پر فائرنگ، 3 افراد جاں بحق، 14 زخمی

    جولائی 17, 2025

    شمسی توانائی: روشن مستقبل یا بھاری ٹیکسوں کا اندھیرا؟۔ تحریر ندا خان

    جولائی 16, 2025

    برطانیہ نے پاکستانی ایئرلائنز کے لیے راستہ کھول دیا

    جولائی 16, 2025

    جنوبی وزیرستان میں دہشتگرد حمید اللہ ہلاک، اہل خانہ کا لاش لینے سے انکار

    جولائی 16, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025 اخبار خیبر (خیبر نیٹ ورک)

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.