Close Menu
اخبارِخیبرپشاور
    مفید لنکس
    • پښتو خبرونه
    • انگریزی خبریں
    • ہم سے رابطہ کریں
    Facebook X (Twitter) Instagram
    منگل, جولائی 22, 2025
    • ہم سے رابطہ کریں
    بریکنگ نیوز
    • مدارس کا المیہ اور مستقبل کی کڑی ذمہ داری
    • جلاؤ گھیراؤ کیس میں شاہ محمود بری، ڈاکٹر یاسمین، میاں محمود، سرفراز چیمہ، اعجاز چودھری کو 10، 10 سال قید کی سزا
    • سی پیک کے دوسرے مرحلے میں پاک چین معاملات بزنس ٹو بزنس طرز پرمعاملات طے کیے جائیں گے، وزیراعظم شہبازشریف
    • قلات میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 8 دہشت گرد ہلاک،بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد
    • سلامتی کونسل میں عالمی امن کیلئے پاکستان کی قرارداد متفقہ طور پر منظور
    • بنگلادیش نے دوسرے ٹی 20 میچ میں پاکستانی ٹیم کو 8 رنز سے ہرا کر دیا
    • دہشت گردوں کی ڈرون حملوں میں اضافہ کیوں۔۔؟
    • بنوں میں پولیس چوکیوں پر دہشتگردوں کے حملے بروقت جوابی کارروائی سے ناکام بنا دیئے گئے
    Facebook X (Twitter) RSS
    اخبارِخیبرپشاوراخبارِخیبرپشاور
    پښتو خبرونه انگریزی خبریں
    • صفحہ اول
    • اہم خبریں
    • قومی خبریں
    • بلوچستان
    • خیبرپختونخواہ
    • شوبز
    • کھیل
    • دلچسپ و عجیب
    • بلاگ
    اخبارِخیبرپشاور
    آپ پر ہیں:Home » مدارس کا المیہ اور مستقبل کی کڑی ذمہ داری
    بلاگ

    مدارس کا المیہ اور مستقبل کی کڑی ذمہ داری

    جولائی 22, 2025کوئی تبصرہ نہیں ہے۔6 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    The tragedy of madrasahs and their responsibility for the future
    ہر سال ہر ضلعے میں ہزاروں طلبا فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں مگر ان کے پاس دینی نصاب کے علاوہ کوئی ہنر نہیں ہوتا ۔
    Share
    Facebook Twitter Email

    پاکستان میں مدارس کا نظام ایک ایسا المیہ ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مگر ہم نے اسے نظرانداز کر رکھا ہے ۔ ملک بھر میں مدارس کی اصل تعداد کسی کو معلوم نہیں ۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ تیس ہزار رجسٹرڈ ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ ساٹھ ہزار سے بھی زیادہ ہیں ۔ یہ وہ ادارے ہیں جو لاکھوں بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، مگر جب اندر جھانکا جائے تو سوالات کی ایک پوری دنیا سامنے آ جاتی ہے جنہیں ہم دہائیوں سے دبائے بیٹھے ہیں ۔

    آج پاکستان میں جس کی مرضی ہو، وہ گھر کے کسی کمرے میں مدرسہ قائم کر لیتا ہے ۔ نہ کوئی ضابطہ، نہ کوئی معیار، نہ زمین کے لیے کوئی شرط، نہ کھیل کے میدان کا تقاضا ۔ یہ بے ضابطگی اس لیے برقرار ہے کہ ریاست مذہبی قوتوں کے دباؤ سے خوفزدہ ہے اور قانون سازی کرنے سے ڈرتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ مدارس ایک متوازی نظام کی صورت میں بغیر کسی نگرانی کے چل رہے ہیں، اور یہ نظام خاموشی سے سماج کی جڑوں میں پھیل چکا ہے ۔

    یہ صرف تعداد کا مسئلہ نہیں بلکہ مستقبل کا سوال ہے ۔ ہر سال ہر ضلعے میں ہزاروں طلبا فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں مگر ان کے پاس دینی نصاب کے علاوہ کوئی ہنر نہیں ہوتا ۔ وہ جدید دنیا کے تقاضوں سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ یہ خلا انہیں اسی محدود دائرے میں قید کر دیتا ہے ۔ کوئی زمین وقف کرا لیتا ہے، کچھ چندہ اکٹھا کرتا ہے، نیچے مدرسہ اوپر گھر بن جاتا ہے اور یوں ایک اور غیر معیاری ادارہ کھل جاتا ہے ۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں ۔

    اساتذہ کے معاملے میں بھی کوئی واضح معیار نہیں ۔ آج بھی بیشتر مدارس میں جس شخص کو چاہا، محض چندہ اکٹھا کرنے کی صلاحیت یا کسی خاص مسلک سے قربت کی بنیاد پر مدرس لگا دیا جاتا ہے ۔ کوئی ٹریننگ نہیں، کوئی تدریسی اصول نہیں ۔ اساتذہ کی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ وہ خود غربت کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں ۔ تدریس ان کے لیے مشن کے بجائے محض گزارے کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے ۔

    مدارس کے اندر کا ماحول بھی بیشتر جگہوں پر غیر انسانی ہے ۔ طلبا کا کھانا پینا مناسب نہیں، رہائش گاہیں تنگ و تاریک ہیں، کلاس رومز میں روشنی اور ہوا کا انتظام بھی کمزور ہوتا ہے ۔ گھٹن زدہ ماحول میں تخلیقی سوچ پنپ نہیں سکتی ۔ جسمانی سزا اب بھی عام ہے ۔ بچوں کے ذہن میں جو سوالات جنم لیتے ہیں، انہیں پوچھنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اگر پوچھیں تو انہیں ڈانٹ پڑتی ہے یا مار پڑتی ہے ۔ نتیجہ یہ کہ وہ سوالات دب جاتے ہیں اور ذہنی جمود پیدا ہو جاتا ہے ۔

    تربیت میں ایک خطرناک یک رنگی ہے ۔ ان مدارس میں بچے دنیاوی علوم سے دور رکھے جاتے ہیں ۔ ان کے نصاب میں نہ جدید سائنس ہے، نہ ریاضی، نہ سوشل سائنسز ۔ کوئی فنی تعلیم نہیں، کوئی کمپیوٹر یا ٹیکنالوجی کی تربیت نہیں ۔ نہ کھیلوں کا کوئی میدان ہے، نہ نصابی سرگرمیاں ۔ بچے صرف رٹنے والے ذہن کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں اور ایک ایسے معاشرے میں قدم رکھتے ہیں جو بدل رہا ہے، ترقی کر رہا ہے، مگر وہ اس میں فٹ نہیں بیٹھ پاتے ۔

    یہ صورتحال صرف تعلیمی پسماندگی نہیں بلکہ سماجی مسائل کو جنم دینے والا ایک دھماکہ خیز مواد ہے ۔ ایک ایسا طبقہ پیدا ہو رہا ہے جو نہ مکمل دینی عالم ہے نہ جدید دور کا شہری ۔ ان کے پاس معیشت کے لیے کوئی راستہ نہیں، سوائے اس کے کہ وہی چکر دہرایا جائے: پھر ایک مدرسہ کھولو، پھر چندہ لو، پھر مزید بچے پیدا کرو جو اسی چکر میں پلیں ۔ یہ سب کچھ صرف فرد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا نقصان ہے ۔

    ریاست اگر واقعی مستقبل سنوارنا چاہتی ہے تو مدارس کو سکولوں کے قوانین کے دائرے میں لانا ہوگا ۔ مدرسہ قائم کرنے کے لیے باقاعدہ زمین کا رقبہ، بڑی اور محفوظ عمارت، کھیل کے میدان، لیبارٹریز اور لائبریریاں لازمی قرار دی جائیں ۔ اساتذہ کے لیے سخت معیار ہوں، انہیں جدید تدریسی تربیت دی جائے اور ان کی تنخواہیں اتنی ہوں کہ وہ باوقار زندگی گزار سکیں ۔ طلبا کے لیے معیاری کھانا، مناسب رہائش، اور کھلی فضا میں کھیلنے کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔

    مدارس کے نصاب میں جدید سائنس، ریاضی، کمپیوٹر اور سماجی علوم کو شامل کرنا ضروری ہے ۔ انہیں فنی تربیت دی جائے تاکہ فارغ ہونے کے بعد وہ معاشی طور پر خود مختار ہو سکیں ۔ اس طرح یہ بچے صرف درس دینے والے نہیں بلکہ ایک وسیع علم اور ہنر رکھنے والے شہری بن سکیں گے ۔

    فنڈنگ کے نظام کو شفاف بنانا لازمی ہے ۔ افراد سے لیے جانے والے چندوں پر پابندی لگائی جائے اور ہر مدرسے کے مالی معاملات کا سالانہ آڈٹ ہو ۔ حکومت کے ماتحت ایک آزاد مانیٹرنگ باڈی ہو جو ہر سال مدارس کے نصاب، اساتذہ کی کارکردگی، اور مالی شفافیت پر رپورٹ جاری کرے ۔

    طلبا کی نفسیاتی اور فکری تربیت پر توجہ دینا وقت کی ضرورت ہے ۔ ان کے سوالات کو دبانے کے بجائے ان کے جوابات تلاش کرنے کا ماحول پیدا کیا جائے ۔ مختلف مسالک کے علما کو ایک ساتھ بٹھا کر مشترکہ ورکشاپس اور علمی نشستیں رکھی جائیں تاکہ طلبا کے ذہن میں وسعت پیدا ہو اور وہ اختلافِ رائے کو برداشت کرنا سیکھیں ۔ انہیں فنونِ لطیفہ، کھیلوں اور معاشرتی سرگرمیوں سے جوڑا جائے تاکہ ان کی شخصیت میں توازن اور ہم آہنگی پیدا ہو ۔

    یہ سب کچھ کسی مذہب دشمنی کے لیے نہیں بلکہ اسی دین کی تعلیم کو محفوظ اور معیاری بنانے کے لیے ہے ۔ مدارس کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کیے بغیر ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو سماج سے کٹی ہوئی ہے، جو سوال کرنے سے ڈرتی ہے، جو خواب دیکھنے سے محروم ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ بچے مستقبل کے روشن فکر علما، محققین، استاد اور معاشرے کے کارآمد شہری بنیں تو ہمیں مدارس کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا ۔ یہ صرف ایک تعلیمی اصلاح نہیں بلکہ ایک قومی بقا کا سوال ہے ۔

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleجلاؤ گھیراؤ کیس میں شاہ محمود بری، ڈاکٹر یاسمین، میاں محمود، سرفراز چیمہ، اعجاز چودھری کو 10، 10 سال قید کی سزا
    Khalid Khan
    • Website

    Related Posts

    دہشت گردوں کی ڈرون حملوں میں اضافہ کیوں۔۔؟

    جولائی 22, 2025

    زبردستی کا پاکستان

    جولائی 21, 2025

    جمہوریت کا لاشہ اور عسکری کندھا

    جولائی 20, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    Khyber News YouTube Channel
    khybernews streaming
    فولو کریں
    • Facebook
    • Twitter
    • YouTube
    مقبول خبریں

    مدارس کا المیہ اور مستقبل کی کڑی ذمہ داری

    جولائی 22, 2025

    جلاؤ گھیراؤ کیس میں شاہ محمود بری، ڈاکٹر یاسمین، میاں محمود، سرفراز چیمہ، اعجاز چودھری کو 10، 10 سال قید کی سزا

    جولائی 22, 2025

    سی پیک کے دوسرے مرحلے میں پاک چین معاملات بزنس ٹو بزنس طرز پرمعاملات طے کیے جائیں گے، وزیراعظم شہبازشریف

    جولائی 22, 2025

    قلات میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 8 دہشت گرد ہلاک،بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد

    جولائی 22, 2025

    سلامتی کونسل میں عالمی امن کیلئے پاکستان کی قرارداد متفقہ طور پر منظور

    جولائی 22, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025 اخبار خیبر (خیبر نیٹ ورک)

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.