نیب نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کردی جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ نیوگیسٹ ہاؤس پولیس لائن میں عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی جس سلسلے میں چیئرمین پی ٹی آئی وکلا میں علی بخاری، خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران نیب پراسکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب کو مزید تفتیش درکار ہے جس کے لیے عمران خان کا 14 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کی استدعا کے بعد سماعت میں وقفہ کردیا جس پر عمران خان نے عدالت سے کہا کہ وہ اپنے وکلا سےمشاورت کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ سابق وزیراعظم سماعت میں وقفے کے دوران اپنے وکلا سے مشاورت کی۔ وقفے کے بعد کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا گیا جس میں پراسیکیوٹر سردار ذوالقرنین، ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب مظفر عباسی،اسپیشل پراسیکیوٹر رافع مقصود اور تفتیشی افسر میاں عمر ندیم پیش ہوئے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو گرفتاری کے وقت وارنٹ دکھائے گئے تھے۔
اس پر عمران خان نے کہا کہ مجھے نیب آفس پہنچنے کے بعد وارنٹ دیے گئے، ڈپٹی پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ تمام ضروری کاغذات عمران خان کے وکلا کو فراہم کردیے جائیں گے۔ دورانِ سماعت خواجہ حارث نے کہا کہ جس طرح عمران خان کو گرفتار کیا گیا، قانونی طور پر گرفتاری غلط ہے، اس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ہم یہاں کرپشن کا معاملہ بیان کررہے ہیں، رقم برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پکڑی تھی، این سی اے نے وہ رقم حکومت پاکستان کو واپس بھیجی، لوٹی گئی رقم بدنیتی سے بزنس ٹائیکون کے یساتھ ایڈجسٹ کردی گئی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ القادر ٹرسٹ چل رہا ہے اور اس زمین پر عمارت بنی ہوئی ہے، لوگ القادر ٹرسٹ میں مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں، جو ٹرسٹی ہوتا ہیں وہ ایک لیگل پرسن ہوتا ہے، وہ پبلک آفس ہولڈرنہیں ہوتا، عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں۔
سماعت کے دوران عمران خان نے عدالت میں کہا کہ کونسا ریکارڈ ان کو چاہیے جو میں نہیں مان رہا، نیب کہہ رہا ہیں کہ ہم نے ریکارڈ اکٹھا کرنا ہے، جو بھی پیسے آئے تھے کابینہ کی منظوری سے آئے تھے، اس میں ہمارے پاس دو آپشن ہوتے ہیں، یا تو ہم مان جائیں تو پیسہ آجائے گا، دوسرا ہمیں قانونی چارہ جوئی کرنا ہوتی ہے تو ہم ہرکیس ہارجاتے ہیں، ہم قانونی چارہ جوئی پر آج تک 100 ملین روپے لگاچکے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھے حراست میں لیا گیا اور شیشے توڑے گئے، میرے ڈاکٹر کو بلالیں، ڈاکٹر فیصل کو بلائیں، میں کہتا ہوں میرے ساتھ مسعود چپڑاسی والا کام نہ ہو، یہ ایک انجیکشن لگاتے ہیں جس سے بندا آہستہ آہستہ مرجاتا ہے۔ بعد ازاں عدالت فریقین کے دلائل سننے کے بعد جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔