چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد کے تاجروں کی جانب سے احتجاج رکوانے کے لیے دائر پٹیشن پر سماعت کی .
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2 دن سے پورا اسلام آباد بند ہے، کاروبار بند ہے، بچوں کے امتحانات ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد کی روزانہ آمدورفت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں صورتحال سمجھ سکتا ہوں، میں خود کنٹینرز کے درمیان سے گزر کر آیا ہوں۔
عدالت کے فوری طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ خرم علی آغا عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے پورا شہر کیوں بند کیا ہوا ہے ۔
جس پر سیکرٹری داخلہ خرم علی آغا نے جواب دیا کہ ملائیشیا کے وزیراعظم گزشتہ روز اسلام آباد میں موجود تھے۔ اسلام آباد میں احتجاج کے لیے قانون موجود ہے۔ تین چار دن میں اہم سعودی وفد بھی پاکستان پہنچ رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونا پاکستان کے لیے باعث فخر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی کا یہ حق نہیں کہ وہ سڑک کے درمیان اکٹھے ہو جائیں اور میرا راستہ بند کر دیں۔ ان کو مناسب جگہ دیں جہاں احتجاج کریں یا جو مرضی کرنا ہو کر لیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا کام ہے اور آپ نے ہی کرنا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ احتجاج بنیادی حق ہے، مظاہرین جس حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں کریں۔ اس وقت شہر ایسا لگ رہا ہے حالت جنگ میں ہے۔ موبائل سروس بند ہے کوئی ایمرجنسی میں کسی سے رابطہ نہیں کر سکتا۔ آپ مناسب اقدامات کریں اور اسلام آباد کو کلیئر کریں۔ وفود پاکستان آ رہے ہیں کوئی نامناسب واقعہ ہوتا ہے تو وزارتِ داخلہ ذمے دار ہو گی۔ آپ نے فوج بھی طلب کی ہوئی ہے؟ آرمڈ فورسز سول حکام کی معاونت کرتی ہیں؟۔ دفعہ 144 نافذ ہے تو یقینی بنائیں کہ اس پر مکمل عملدرآمد ہو۔
عدالت نے حکم دیا کہ دفعہ 144 پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور مظاہرین کو احتجاج کیلئے مناسب جگہ بھی دی جائے ۔